EPAPER
Updated: January 29, 2022, 1:22 PM IST | Dr Muhammad Tahir-ul-Qadri | Mumbai
مذہب اسلام نے صحت کی باریکیوں کو سمجھایا اور اس طرح صحت کے وسیع تر مفہوم سے آگاہ کیا ہے۔
اِسلام دین فطرت ہے۔ بنظرِ غائر دیکھا جائے تو رُوحانیت کا سرچشمہ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ ہماری مادّی فلاح اور بدنی صحت کے لئے بھی ایک بہترین اور مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ اِس پر عمل پیرا ہونے سے نہ صرف ہم اَخلاقی و رُوحانی اور سیاسی و معاشی زندگی میں عروج حاصل کر سکتے ہیں بلکہ جسمانی سطح پر صحت و توانائی کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو سکتے ہیں۔ اسلام کی عمومی تعلیمات بنی نوعِ اِنسان کی فلاح کے لئے حفظانِ صحت کے اُصولوں کے عین مطابق ہیں جنہیں قرآنِ مجید اور پیغمبر اِسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے وضع فرمایا تھا۔ جدید سائنس اَب کہیں جا کر اُن زرّیں اُصولوں کی اِفادیت سے آگاہ ہوئی ہے جو تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بالکل سادہ اور عام فہم زبان میں اپنی اُمت کو سمجھائے تھے۔
مسلسل طبی تحقیق کی ترغیب : طبی نقطۂ نگاہ سے مسلسل تحقیقات کا جاری رکھنا اور ہر بیماری کا علاج ڈھونڈ نکالنا ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہم پر فرض ہے۔ ہر بیماری قابلِ علاج ہے۔ اِس حوالے سے تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِرشادِ گرامی ہے: ’’اللہ نے ایسی کوئی بیماری نہیں اُتاری جس کی شفا نازل نہ فرمائی ہو۔‘‘ (صحیح بخاری، جامع ترمذی)۔ یہ حدیث مبارکہ بنی نوعِ انسان کو ہر مرض کی دوا کے باب میں مسلسل ریسرچ کے پروسس کو جاری رکھنے پر آمادہ کرتی ہے۔ یہ تصور کہ بعض بیماریاں کلیتاً لاعلاج ہیں، اِس تصور کو اِسلام نے قطعی طور پر بے بنیاد اور غلط قرار دیا اور اِس تصور کو اپنانا ریسرچ کے تصور کی نفی کرنے کے مترادف ہے۔ اپنی تحقیق سے کسی مرض کا علاج دریافت نہ کر سکنے پر مرض کو ناقابلِ علاج قرار دینا جہالت کی علامت ہے۔ صحت، صفائی اور حفظِ ماتقدّم اِسلام کی جملہ تعلیمات کا آغاز طہارت سے ہوتا ہے اور حفظانِ صحت کے اُصولوں کا پہلا قدم اور پہلا اُصول بھی طہارت ہے۔ طہارت کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے: ’’صفائی اِیمان کا لازمی جزو ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)۔ اِسلامی تعلیمات میں طہارت کا باب اُن مقامات کی طہارت سے شروع ہوتا ہے جہاں سے فضلات خارج ہوتے ہیں۔ یہ طہارت کا پہلا اُصول ہے اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہر شخص سمجھتا ہے کہ اس کے بغیر طہارت کا کوئی تصور مکمل نہیں ہوتا۔
وضو سے حفظانِ صحت : نماز ہر عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہے، ایک مسلمان جب دن میں پانچ بار اللہ کے حضور نماز ادا کرتا ہے تو وہ اُس سے پہلے وضو کرتا ہے، جس سے اُسے بدنی طہارت حاصل ہوتی ہے۔ نماز سے پہلے وضو کرنا فرض ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ’’تو (وضو کے لئے) اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں (بھی) ٹخنوں سمیت (دھو لو)۔ ‘‘(المائدہ:۶)۔ وضو حفظانِ صحت کے زرّیں اُصولوں میں سے ہے۔ یہ روزمرہ کی زندگی میں جراثیم کے خلاف ایک بہت بڑی ڈھال ہے۔ بہت سی بیماریاں صرف جراثیم کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ یہ جراثیم ہمیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں۔ ہوا، زمین اور ہمارے اِستعمال کی ہر چیز پر یہ موذی مسلط ہیں۔ جسمِ انسانی کی حیثیت ایک قلعے کی سی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری جلد کی ساخت کچھ ایسی تدبیر سے بنائی ہے کہ جراثیم اُس میں سے ہمارے بدن میں داخل نہیں ہو سکتے البتہ جلد پر ہو جانے والے زخم اور منہ اور ناک کے سوراخ ہر وقت جراثیم کی زد میں ہیں۔ اللہ ربّ العزت نے وضو کے ذریعے نہ صرف اُن سوراخوں کو بلکہ اپنے جسم کے ہر حصے کو جو عام طور پر کپڑوں میں ڈھکا ہوا نہیں ہوتا اور آسانی سے جراثیم کی آماجگاہ بن سکتا ہے دن میں (کم از کم) پانچ بار دھونے کا حکم فرمایا۔ انسانی جسم میں ناک اور منہ ایسے اَعضاء ہیں جن کے ذریعے جراثیم سانس اور کھانے کے ساتھ آسانی سے اِنسانی جسم میں داخل ہو سکتے ہیں، لہٰذا گلے کی صفائی کے لئے غرارہ کرنے کا حکم دیا اور ناک کو اندر ہڈی تک گیلا کرنے کا حکم دیا۔ بعض اَوقات جراثیم ناک میں داخل ہو کر اندر کے بالوں سے چمٹ جاتے ہیں اور اگر دن میں پانچ بار اُسے دھونے کا عمل نہ ہو تو ہم صاف ہوا سے بھرپور سانس بھی نہیں لے سکتے۔ اُس کے بعد چہرے کو تین بار دھونے کی تلقین فرمائی ہے تاکہ ٹھنڈا پانی مسلسل آنکھوں پر پڑتا رہے اور آنکھیں جملہ اَمراض سے محفوظ رہیں۔ اِسی طرح بازو اور پاؤں کے دھونے میں بھی کئی طبی فوائد پنہاں ہیں۔ وضو ہمارے بے شمار اَمراض کا ازخود علاج کر دیتا ہے کہ جن کے پیدا ہونے کا ہمیں اِحساس تک نہیں ہوتا۔ طہارت کے باب میں طبِ جدید جن تصورات کو واضح کرتی ہے اِسلام نے اُنہیں تصورِ طہارت میں سمو دیا ہے۔
آدابِ طعام اور حفظانِ صحت : بیماری کے جراثیم کھانا کھاتے وقت بآسانی ہمارے جسم میں داخل ہو سکتے ہیں۔ اس میں اشیائے خورد و نوش کے علاوہ ہمارے ہاتھوں کا بھی اہم کردار ہے۔ ہاتھوں کی صفائی کے حوالے سے تاجدارِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: ’’کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونا برکت کا باعث ہے۔‘‘ (جامع ترمذی، سنن ابی داؤد)۔ کھانے سے قبل ہاتھوں کو دھو کر اگر کسی کپڑے وغیرہ سے خشک کر لیا جائے تو بھی اُس کپڑے کی وساطت سے جراثیم دوبارہ ہاتھوں پر منتقل ہو سکتے ہیں۔اِس بارے میں بھی اِسلامی تعلیمات بالکل واضح ہیں۔ فتاویٰ ہندیہ میں مذکور ہے : ’’کھانے سے پہلے دھوئے ہوئے ہاتھ کسی کپڑے سے مت خشک کرو تاکہ ہاتھوں کی صفائی کھانے کے دوران قائم رہ سکے۔‘‘ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیثِ مبارکہ مروی ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جب تم میں سے کوئی کھانا کھا لے تو اپنے ہاتھوں کو چاٹنے سے قبل نہ پونچھے۔‘‘ (سنن ترمذ)۔ کھانے کے بعد ہاتھوں کو ضرور دھونا چاہئے مبادا خوراک کے ذرّات کسی اذیت کا باعث بنیں۔ کھانے کے بعد ہاتھ دھوئے بغیر سو جانے سے سرورؐ کائنات نے سختی سے منع فرمایا۔ اِسی طرح آپؐ کا اِرشاد گرامی ہے کہ نیند سے بیدار ہونے کے بعد جب تک ہاتھ دھو نہ لئے جائیں برتن میں نہیں ڈالنے چاہئیں ۔ فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص بیدار ہو تو اپنے ہاتھوں کو تین بار دھوئے بغیر برتن میں نہ ڈالے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اُس کے ہاتھ نے رات کہاں گزاری، (یعنی نیند کی حالت میں کہاں لگتے رہے یا اُن کے قریب سے کوئی جانور وغیرہ گزرا ہے)۔
برتن میں سانس لینے کی ممانعت : حفظانِ صحت کے نقطۂ نظر سے اَشیائے خورد و نوش کو کامل اِحتیاط سے رکھنا چاہئے اور اگر وہ کھلے برتن میں ہوں تو اُنہیں ڈھانپ دینا چاہئے تاکہ اُن میں ایسے جراثیم داخل نہ ہو سکیں جو صحتِ انسانی کے لئے مضر ہوں۔ اِسی طرح برتن میں سانس لینے سے بھی جراثیم اُس میں منتقل ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ مبادا سانس لینے والا مریض ہو اور اُس کے جراثیم بعد میں پینے والوں کے جسم میں بھی چلے جائیں۔ تاجدارِکائناتؐ کا اِرشاد ہے : عبداللہ بن ابی قتادہ، اپنے والد سے رِوایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جب تم میں سے کوئی پانی پیئے تو برتن میں سانس نہ لے۔‘‘ (صحیح بخاری متعدّی اَمراض سے حفاظت
وہ اَمراض جو متعدی ہیں اور اُن کے جراثیم تیزی سے ایک اِنسان سے دُوسرے کی طرف منتقل ہوتے ہیں، اُن سے بچاؤ کے لئے اِسلام نے خاص طور پر توجہ دلائی ہے۔ طاعون ایک نہایت موذی بیماری ہے۔ آج اگرچہ اُس پر قابو پایا جا چکا ہے مگر کچھ عرصہ قبل تک یہ شہر کے شہر وِیران کر دیا کرتا تھا۔ طاعون سے بچاؤ کے لئے تاجدارِ حکمت نے کچھ ایسے خاص اَحکام بیان فرمائے جو عام بیماریوں کے لئے نہیں۔تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جب تمہیں پتہ چلے کہ کسی علاقے میں طاعون پھیلا ہوا ہے تو وہاں مت جاؤ اور اگر تم پہلے سے وہیں ہو تو اُس علاقے کو چھوڑ کر مت بھاگو۔‘‘ (صحیح بخاری) گویا آپ نے نہ صرف ایسے شہر سے باہر کے لوگوں کو طاعون سے بچانے کے لئے وہاں جانے سے منع فرمایا بلکہ اُس شہر کے لوگوں کو وہاں سے نکلنے سے منع کر کے آس پاس کے شہروں کو بھی طاعون سے محفوظ فرما دیا مبادا وہاں سے لوگ ہر طرف بھاگ نکلیں اور یہ مرض آس پاس کے تمام شہروں میں پھیل جائے۔
دانتوں اور منہ کی صفائی
دانتوں کی صفائی کے بارے میں تاجدارِ حکمت و بصیرت جناب رسولؐ اللہ کا ارشادِ مبارکہ ہے : ’’اپنا منہ صاف رکھو۔‘‘ (سلسة الأحاديث الصحية للألباني)۔ طبی نقطۂ نظر سے دانتوں کی صفائی جہاں دانتوں کو بہت سی خرابیوں سے محفوظ رکھتی ہے وہاں اَمراضِ معدہ کے سدِباب کا بھی بہت بڑا ذریعہ ہے۔ آپؐ نے دانتوں کی صفائی پر بہت زور دیا۔ایک اور مقام پر اِرشاد فرمایا : ’’اگر میں اپنی اُمت پر باعثِ دُشواری نہ سمجھتا تو اُنہیں ہر نماز میں دانتوں کی صفائی کا حکم دیتا۔‘‘ (صحیح بخاری)
نماز کے طبی فوائد
نماز اَرکانِ اِسلام میں توحید و رسالت کی شہادت کے بعد سب سے بڑا رُکن ہے۔ اللہ اور اُس کے رسولؐ نے اِسے اِیمان اور کفر کے درمیان حدِ فاصل قرار دیا ہے۔ نماز کی رُوحانی و اِیمانی برکات اپنی جگہ مسلّم ہیں۔ نماز سے بہتر ہلکی پھلکی اور مسلسل ورزش کا تصوّر نہیں کیا جا سکتا۔ فزیو تھراپی کے ماہر (physiotherapists) کہتے ہیں کہ اُس ورزش کا کوئی فائدہ نہیں جس میں تسلسل نہ ہو یا وہ اِتنی زیادہ کی جائے کہ جسم بری طرح تھک جائے۔ اللہ ربّ العزت نے اپنی عبادت کے طور پر وہ عمل عطا کیا کہ جس میں ورزش اور فزیو تھراپی کی غالباً تمام صورتیں بہتر صورت میں پائی جاتی ہیں۔ ایک مؤمن کی نماز جہاں اُسے مکمل رُوحانی و جسمانی منافع کا پیکیج مہیا کرتی ہے وہاں منافقوں کی علامات میں ایک علامت اُن کی نماز میں سستی و کاہلی بھی بیان کی گئی ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے : ’’اور جب وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو سُستی کے ساتھ کھڑے (ہوتے ہیں)۔‘‘ (النساء:۱۲۴)
کم خوری اور متوازن غذا
طبی تحقیق نے ثابت کر دیا ہے کہ دل کی زیادہ تر بیماریاں معدے سے جنم لیتی ہیں۔ کوئی شخص جتنی زیادہ غذا کھاتا ہے اُتنی ہی زیادہ بیماریوں کو مول لیتا ہے جبکہ زائد کھانے سے اِجتناب، دل کے اَمراض سے بچاؤ میں بہت مُمِد ثابت ہوتا ہے۔ زیادہ خوراک کھانے کی عادت اِنسانی صحت پر بری طرح اثرانداز ہوتی ہے۔ اِسی لئے اِسلام نے ہمیشہ بھوک رکھ کر کھانے اور متوازن غذا کھانے کے متعلق سختی سے اَحکامات صادِر فرمائے ہیں۔ قرآنِ مجید نے متوازن غذا کی عادت کو برقرار رکھنے کیلئے خوراک کے زائد اِستعمال سے دُور رہنے کی سختی سے تلقین کی ہے۔اِرشادِ باری تعالیٰ ہے : ’کھاؤ اور پیو اور ضائع مت کرو اور اللہ اِسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (الاعراف:۳۱) رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِسی بات کو تشبیہاً اِس انداز میں بیان فرمایا ہے: ’’مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری، جامع ترمذی)۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اِسلام کے آفاقی اَحکامات میں پنہاں وسیع تر مفاد اور اُن کے دُور رس نتائج کے پیشِ نظر ہم بہت سے اَمراض سے چھٹکارا پا سکتے ہیں۔