EPAPER
Updated: March 23, 2021, 10:38 AM IST
| Hasan Kamal
ستیہ پال ملک نے میگھالیہ میں اخبار نویسوں کو خطاب کرتے ہوئے صاف کہہ دیا تھا کہ اگر کسان ان قوانین کو مضر سمجھتے ہیں تو سرکار کو ان کے نفاذ پر اصرار کرنا چھوڑ دینا چاہئے۔ ستیہ پال ملک کے اس کھلے اختلاف سے مودی سرکار میں خفگی پھیل گئی۔ اختلافات رکھنا اور ان اختلافات کو پارٹی کے اندر اور باہر ظاہر کرتے رہنا، بلکہ کبھی کبھی اختلافات کا بغاوت کا روپ دھارن کر لینا کانگریس پارٹی کے کلچر کا حصہ رہا ہے۔ یہ آج سے نہیں پارٹی کے جنم لینے کے وقت سے ہردور میں نظر آتا رہا ہے۔ گاندھی جی کے دور میں بھی یہ اختلافات موجود تھے۔ گاندھی اور نہرو کے پیروکار نرم دَل والے سبھاش چندر بوس اور ان کے ساتھی گرم دَلے کانگریسی کہلاتے تھے۔پنڈت نہرو کے دور میں ان کے مرار جی دیسائی کے درمیان اختلافات اخباروں کی شاہ سرخیاں بنتے رہے۔ اندرا گاندھی نے مرارجی ، نجلنگ اپّااور دیو راج سنگھ کے سنڈیکیٹ سے بغاوت کر کے ایک الگ پارٹی ہی بنا لی، جسے اندرا کانگریس کا نام دیاگیا۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد کانگریس راجیو گاندھی کے پیچھے ہمیشہ سے زیادہ مضبوطی سے کھڑی نظر آئی۔ لیکن بہت جلد وی پی سنگھ نے بغاوت کر دی۔ ایک امریکی یونیورسٹی کے پرفیسر اور طلباء سے سوال جواب کے دوراان راہل گاندھی نے اس سلسلہ میں بہت دلچسپ بات کہی۔ جی ۲۳ ؍کے تعلق سے ایک سوال کا جواب دیتےہوئے انہوں نے کہا کہ ملک میں کانگریس وہ واحد سیاسی جماعت ہے، جس میں مختلف انداز کی سوچ سمجھ رکھنے والے لوگ ایک ہی چھت کے تلے رہ سکتے ہیں۔
بی جے پی کا معاملہ اس کے عین بر عکس ہے۔بی جے پی جب جن سنگھ تھی، تب بھی اور جب بی جے پی بن گئی تب بھی، اس میں اختلاف رائے کے اظہار کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔ اسے ڈسپلن کا نام دیا جاتا رہا اور اس کو سراہا بھی جاتا رہا۔ کچھ یہی عالم کمیونسٹ پارٹیوں میں رہا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ان پارٹیوں میں کم از کم اندر سر پھٹول کی خبریں برابر ملتی رہیں۔ بی جے پی میں اندر کی خبریں باہر آنے کی بھی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی۔اختلاف رائے رکھنے والوں کو یا تو باہر کا راستہ دکھایا جاتا ہے یا پھر انہیں گمنامی کےگڑھےمیں ڈھکیل دیا جاتا ہے۔ جن سنگھ کے زمانہ میں بلراج مدھوک پارٹی کی اعلیٰ لیڈر شپ کے دوسرے یا تیسرے پائیدان کے لیڈر مانے جاتے تھے۔ انہوں نے کچھ نکات پر پارٹی کی پالیسی کی مخالفت کی۔ انہیں اس طرح نکال باہر کیا گیا، جس طرح دودھ سے مکھی نکالی جاتی ہے۔ دین دیال اپادھیائے بھی نکتہ چینوں میں شمار ہوتے تھے۔ ایک دن ان کی لاش مغل سرائے اسٹیشن کے پاس پڑی ملی۔ آج تک کسی کو نہیں معلوم کہ ان کی موت کیسے ہوئی تھی۔پھر ایک عرصہ کے بعد یہ خبریں پھوٹیں کہ پارٹی کے او بی سی لیڈرکلیان سنگھ اٹل بہاری واجپئی سے بغاوت پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ واجپئی اس وقت وزیر اعظم تھے۔ کلیان سنگھ نے ان کے لئے ایک بہت دلچسپ نعرہ ایجاد کیا تھا۔ ان کا نعرہ تھا’’سوریہ است پردھان منتری مست‘‘۔ لیکن چونکہ کلیان سنگھ لودھ راجپوت تھے اور او بی سی کو بڑی مشقت کے بعد بی جے پی کا حصہ بنایاجا سکا تھا، اس لئے ان کو باہر نہیں نکالا گیا۔ بابری مسجد کو مسمار کرنے والوں میں وہ سب سے آگے تھے، اس لئے بھی ان کے خلاف کوئی سخت کارروائی مناسب نہیں سمجھی گئی۔ ان کا منہ بندکرنے کیلئے انہیں کوئی نہ کوئی عہدہ دیا جاتا رہا ۔ آخر میں انہیں گورنر بنا دیا گیا۔ پھر جب وہ ۷۵؍ سال کے ہو گئے تو انہیں اٹھا کر ایک گوشہ میں ڈال دیا گیا۔ اوما بھارتی بھی لودھ راجپوت ہیں۔ وہ بھی نکتہ چینی کرنے لگی ۔ انہیں بھی او بی سی ہونے کی وجہ سے چھوٹی موٹی وزارتیں دی جاتی رہیں۔ جب یہ دیکھا گیا کہ اب ان کی اپنی برادری میں ان کا اثر تحلیل ہو چکا ہے، تو انہیں بھی رام نام جپنے کیلئے چھوڑ دیا گیا۔ لال کرشن اڈوانی اور ڈاکٹرمرلی منوہر جوشی اتنے خوش قسمت ثابت نہیں ہوئے۔
جب سے پارٹی کی کمان نریندر مودی اور امیت شاہ نے پوری طرح سے اپنے ہاتھوں میں لی ہے،تب سے اختلاف کی کلی کو کھلنے ہی نہ دینے کا ایک نیا طریقہ نکال لیا گیا ہے۔ جب سے پارٹی کو یہ احساس ہوا ہے کہ ووٹ بی جے پی کے امیدوار کو نہیں ملتے، نریندر مودی کو ملتے ہیںپارٹی اب الیکشن سے پہلے ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت یہ خیال رکھا جاتا ہے کہ ٹکٹ ایسے لوگوں کو دیئے جائیں جن کے دامن داغدار ہوں، تاکہ انہیں ہمیشہ یہ خوف رہے کہ اختلاف کا اظہار کرتے ہی ان کا کیا حشر ہو نے والا ہے۔ اس وقت ۱۱۶؍ ایسے ممبر ہیں ، جن پر واردات قتل، زنا بالجبر اور مجرمانہ خرد برد کے مقدمات درج ہیں۔ کیا یہ لوگ کبھی چوں بھی کر سکتے ۔ یاپھر ایسے لوگوں کو ٹکٹ دیئے جاتے ہیں، جو فلم یا کھیل کود کے میدانوں میں نام کما چکے ہوں اور عوام میں جانےجاتے ہوں۔ ظاہر ہے ایسے افراد کی سیاسی سوچ کی سطح غریبی کی سطح سے بھی نیچی ہوتی ہے۔ اس تمام پس منظر میں دیکھا جائے تو ستیہ پال ملک کا مودی سرکار کی کسی پالیسی سے اتنا کھل کر اختلاف رائے ظاہر کرنا ایک انوکھا واقعہ نظر آتا ہے۔ انہوں نے میگھالے میں اخبار نویسوں کو خطاب کرتے ہوئے صاف کہہ دیا تھا کہ اگر کسان ان قوانین کو مضر سمجھتے ہیں تو سرکار کو ان کے نفاذ پر اصرار کرنا چھوڑ دینا چاہئے۔ ستیہ پال ملک کے اس کھلے اختلاف سے مودی سرکار میں خفگی پھیل گئی۔ ستیہ پال ملک کچھ دن تو چپ رہے۔ لیکن اپنے آبائی وطن یعنی مغربی یوپی کے باغپت میں پہنچتے ہی انہوں نے ایک بار پھرپریس والوںسے بات کی اور اس بار کچھ ایسی باتیں کہیں جنہیں سن کر چاروں طرف خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ انہوں نے کہا کہ مودی سرکار کو کسانوں کو اپنا دشمن نہ بنانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کا حل زیادہ مشکل نہیں ہے۔ کرنا صرف اتنا ہے کہ ایم ایس پی کو قانونی شکل دے دی جائے۔ اس کے بعدکسان خود ہی باقی تین زرعی قوانین کی مخالفت کرنا چھوڑ دیں گے۔انہوں نے بتایا کہ میں نے ایک بڑے جرنلسٹ سے کل ہی بات کی ہے اور اس سے کہا ہے کہ اب وہ جاکر مودی جی کو سمجھائے کہ کسانوں کو خالی ہاتھ واپس نہ بھیجیں۔ اگر وہ خالی ہاتھ چلے گئے تو ان کا غصہ اور بڑھ جائے گا اور یہ سرکار کیلئے بالکل اچھا نہیں ہوگا۔ اس کے بعد انہوں نے جو باتیں کہیں ان کے اندر خطرناک مضمرات پوشیدہ تھے انہوں نے کہا مودی جی اور امت شاہ سکھ قوم کو نہیں جانتے ، وہ یعنی ستیہ پال ملک سکھوں کو اچھی طرح جانتے ہیں ، یہ وہ لوگ ہیںجو باتیں تین سو سال تک بھی نہیں بھولتے۔ انہوں نے کہا کہ اندرا گاندھی آپریشن بلیو اسٹار کے بعدایک مہینے تک یگیہ کرتی رہیں ۔ جب ارون نہرو نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے جواب دیا کہ انہوں نے اکالی تخت توڑا ہے، سکھ ان کو کبھی نہیںچھوڑیں گے۔ ستیہ پال ملک کی اس بات کی تہہ میں جو تھرتھراہٹ اور سنسناہٹ پوشیدہ ہے اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ستیہ پال ملک اپنی مخالفت کی قیمت چکانے کو تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر سرکار کہے گی تو وہ گورنری چھوڑ دیں گے۔ لیکن سرکار نے تادم تحریر تو ایسا کچھ نہیں کہا ہے۔