Inquilab Logo Happiest Places to Work

بچوں کے جنسی استحصال کی تصویروں کی فروخت

Updated: December 11, 2020, 2:39 PM IST | Shamim Tariq

مختلف رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی شیطانی ہوس اور زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کیلئے اپنی نئی نسل کو طرح طرح کی علتوں اور بیماریوں میں مبتلا کرچکی ہے۔

Child Sex Abuse
بچوں کے جنسی استحصال کی تصویروں کی فروخت

ہمارا معاشرہ کتنا گندہ ہوچکا ہے اور ہماری نیت اور عمل و کردار میں کتنی خرابی آچکی ہے اس کا معمولی سا اندازہ ان خبروں سے لگایا جاسکتا ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ جب سے کورونا کا قہر نازل ہوا ہے تب سے نابالغ یا کمسن بچوں کی عریاں یا بدفعلی کرتے ہوئے تصویر لینے کے ۱۳۲۴۴؍ واقعات درج کئے جا چکے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ پاکسو ایکٹ کے تحت روزانہ تقریباً ۱۰۹؍ معاملات درج کئے جارہے ہیں۔ امریکی تنظیم این سی ایم ای سی کے مطابق بچوں کے جنسی استحصال کی مختلف صورتوں میں ۱۱ء۷؍ فیصد واقعات کے ساتھ ہندوستان دوسرے ملکوں سے آگے نکل چکا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہندوستان میں بچوں کے جنسی استحصال کیخلاف سخت قانون نہیں ہے۔ پاکسو اور آئی ٹی قانون کے تحت ان جرائم کیلئے تین سے پانچ برس کی سزا اور لاکھوں روپے کا جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے مگر چونکہ ملک میں سماجی ماحول اور قانون کے نفاذ کی صورتحال بہت خراب ہے اس لئے قوانین کا خاطر خواہ فائدہ نہیں ہورہا ہے۔
 کورونا کے سبب جب لوگوں کا آنا جانا بند ہوا اور آمدنی ختم ہوئی تو اس کا فائدہ ان عناصر نے اٹھانے کی کوشش کی جو بیمار ذہن ہیں۔ بچوں کا جنسی استحصال بذاتِ خود نفسیاتی مرض ہے۔ جنسی استحصال کرتے ہوئے تصویر اُتارنا اور ان کو بیچ کر روپیہ کمانا اور بھی بڑا مرض ہے۔ ایک ڈیڑھ ہفتہ قبل باندہ ضلع کے سینچائی شعبے میں کام کرنے والا ایک جونیئر انجینئر گرفتار ہوا تو بڑی بھیانک سچائیاں سامنے آئیں۔ وہ جونیئر انجینئر گزشتہ دس سال سے چھوٹے بچوں کا جنسی استحصال تو کرتا ہی تھا جنسی فعل کے دوران بنائی گئی قابل اعتراض بلکہ شرمناک تصویروں کو ڈارک ویب کے ذریعہ دنیا بھر میں بیچتا بھی تھا۔
 تحقیقات کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ گرفتار کئے گئے جونیئر انجینئر نے صرف باندہ میں نہیں اڑوس پڑوس کے ضلعوں مثلاً ہمیرپور اور چترکوٹ میں بھی اپنا جال بچھا رکھا تھا۔ اس نے ۵؍ سال سے ۱۶؍ سال تک کے ۵۰؍ سے زائد بچوں کاجنسی استحصال کیا۔ اسی قسم کا ایک واقعہ ڈیڑھ دو مہینہ پہلے ممبئی کے باندرہ میں بھی سامنے آیا تھا۔ سی بی آئی نے ہردوار کے رہنے والے ایک ٹی وی اداکار کو گرفتار کیا۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ اس نے ۱۰؍ سال سے ۱۶؍ سال تک کے تقریباً ایک ہزار بچوں سے رابطہ بنا رکھا تھا۔ یہ شخص بچوں کو فلموں میں کام دلانے کا جھانسا دے کر ’’انسٹاگرام ‘‘ وغیرہ کے ذریعہ ان کی شرمناک تصویریں لے لیتا تھا پھر ان بچوں کو بلیک میل کرتا تھا۔ اس نے جن ایک ہزار بچوں سے رابطہ کیا ان میں امریکہ، یورپ اور جنوبی ایشیائی ملکوں کے بچے بھی تھے۔ سی بی آئی نے جب اس شخص کو گرفتار کیا اور اس سے رابطہ رکھنے والے گروپ اور اکائونٹس کی چھان بین ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہ شخص قابل اعتراض تصویریں محض ڈھائی سو روپے میں بیچا کرتا تھا۔
 باندہ میں جو جونیئر انجینئر گرفتار ہوا وہ سرکاری محکمے میں ملازم ہے ظاہر ہے اس کو اچھی تنخواہ بھی ملتی ہوگی۔ مگر اس کی لالچ کا یہ حال تھا کہ وہ بہت معمولی سی رقم کے لئے قابل اعتراض تصویریں بیچا کرتا تھا۔ کیرالا میں بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے دوسرے مقامات پر بھی ایسے واقعات ہوئے ہوں گے مگر یہاں صرف ان ہی کی مقامات کا ذکر کیا جارہا ہے جو خبروں میں جگہ پاچکے ہیں یا جہاں گرفتاری عمل میں آئی ہے۔ یہ رجحان تو ہندوستان میں پہلے سے تھا مگر کہتے ہیں کہ خالی مکان میں بھوت رہتا ہے۔ لاک ڈائون کے دوران جب کیا بڑے اور کیا بچے کہیں آجا نہیں رہے تھے بلکہ ایک جگہ محصور ہوکر رہ گئے تھے اور غریب خاندان کے نو عمر بچوں کی ضرورتیں بھی اٹکی ہوئی تھیں ایسی صورت میں شیطانی کام کرنے والوں کے لئے آسانی پیدا ہوگئی۔
 یہ بھی ایک نفسیاتی مرض ہے۔ ایک بار کسی شخص کو یہ عادت پڑ جاتی ہے تو وہ کسی صورت میں بھی اس سے نجات نہیں پاتا۔ جو بچے جنسی استحصال کا شکار ہوتے ہیں یا کچھ روپیہ لے کر جنسی استحصال کی اجازت دیتے ہیں ایک وقت آتا ہے کہ وہ اس کے عادی ہوجاتے ہیں۔ ایسے بچے بدترین بیماریوں کا بھی شکار ہوتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بعض عناصر اپنے شیطانی مقاصد کو پورا کرنے کیلئے بچوں میں نشے کی عادت ڈالتے ہیں۔ یہ نشہ شراب، افیم، گانجا اور ڈرگس ہر قسم کا ہوتا ہے۔ این ڈی ڈی سی کے مطابق ۱۲؍ اور ۱۴؍ سال کے درمیان کی عمر کے بچوں میں نشہ کرنے کا رجحان زیادہ پیدا ہوا ہے۔ یہی عمر جنسی استحصال کی بھی ہے جو بچے جنسی استحصال کیلئے تیار نہیں ہوتے انہیں کسی بہانے سے نشہ پلا کر اپنا کام نکالا جاتا ہے۔ بچوں کو نشہ سے بچانے کیلئے بھی ملک میں کئی قوانین موجود ہیں۔ حکومت نے کئی منصوبے بھی بنا رکھے ہیں مگر واقعہ یہ ہے کہ سارے اقدام کاغذی ثابت ہورہے ہیں۔ بچوں میں نشے کی عادت کے پیدا ہونے کا سبب والدین کے درمیان اختلاف کا پیدا ہونا یا ان کا خود نشے کا عادی ہونا یا اپنے بچوں کو وقت نہ دے پانا ہے۔
 مختلف رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی شیطانی ہوس اور زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کے لئے اپنی نئی نسل کو طرح طرح کی علتوں اور بیماریوں میں مبتلا کرچکی ہے۔ قانون اس کی روک تھام میں کارگر ثابت نہیں ہوا ہے تو شاید اس لئے کہ پاک بازی اور پاک نفسی کو پامال کرنے کی روش جلدی قانون کی گرفت میں نہیں آتی اور گرفت میں آتی بھی ہے تو پھر بچائو کی صورت پیدا کرلیتی ہے۔ فرائڈ نے جنسی محرکات کا کئی سطح پر تجزیہ کیا تھا اور کچھ نتائج اخذ کئے تھے۔ ممکن ہے کہ اس کی ہر بات سے ہم اتفاق نہ کرسکیں مگر خود فرائڈ کو بھی علم نہیں رہا ہوگا کہ بچوں کے جنسی استحصال کی تصویریں دیکھ کر کیسے کیسے لوگ لطف و لذت حاصل کرسکتے ہیں۔ ایسی تصویر حاصل کرنے کیلئے روپے خرچ کرتے ہیں۔ بچوں کا اس عمر میں کسی خاص کیفیت میں کوئی جرم یا گناہ کربیٹھنا کوئی تعجب کی بات نہیں مگر ان جرائم یا گناہوں کا عادی بنانے کا کام وہ لوگ کرتے ہیں جو بظاہر بڑے صاف ستھرے نظر آتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ ایسے لوگوں سے بھرا پڑا ہے۔ مغرب میں تو اس کو جرم ہی نہیں سمجھا جاتا مگر مشرق جہاں اس کو جرم اور گناہ سمجھا جاتا ہے دہرے معیار پر عمل کررہا ہے۔ اس گھنائونے مرض یا جرم کا بڑھنا اسی دہرے معیار کے سبب ہے۔ بچوں کے جنسی استحصال کی روش کو روکنا مقصد ہے تو ہمیں دہرے معیار سے بچنا بھی ہوگا اور دوسروں کو بچانا بھی ہوگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK