EPAPER
Updated: February 19, 2021, 8:38 AM IST
| Shamim Tariq
اچھا ہوا کہ فوجوں کی واپسی کا سلسلہ شروع ہوگیا مگر یہ کوشش جاری رہنی چاہئے کہ آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے اور وہ تمام تنازعات حل ہوجائیں جو چین اور ہندوستان کو اکثر ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑا کردیتے ہیں۔ گزشتہ جون سے ہی ہندوستان چین سرحد پر اس قدر کشیدگی رہی ہے کہ ڈر لگا رہتا تھا کہ معلوم نہیں کب جنگ چھڑ جائے۔ ایک امن پسند شخص جنگ ٹلتے رہنے کی ہی دعا مانگتا ہے کیونکہ جنگ کی صورت میں ہارنے والے ملک کے عوام کے ساتھ جیتنے والے ملک کے عوام کو بھی بہت کچھ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ہم ہندوستانی بھی جنگ ٹلتے رہنے کی دعا کررہے تھے مگر اس دعا میں ایک اور دعا یہ بھی شامل تھی کہ ہمارے ملک کو اپنی زمین اور وسائل سے محروم نہ ہونا پڑے۔ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے جب ہندوستانی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کو مطلع کیا کہ معاہدہ ہوگیا ہے تو بڑا اطمینان ہوا۔ انہوں نے مزید اطمینان دلایا کہ ہندوستان نے اس بات چیت میں کچھ بھی کھویا نہیں ہے۔
معاہدے کے مطابق دونوں فریق آگے کی پوسٹ پر موجود اپنی فوجوں کو مرحلہ وار پیچھے ہٹائیں گے۔ اس بات پر بھی اتفاق ہوگیا ہے کہ پینگونگ جھیل سے فوجوں کے ہٹنے کے بعد سینئر کمانڈرس کی سطح پر بات چیت ہوگی اور دیگر تنازعات کا بھی حل نکال لیا جائے گا۔ اپریل ۲۰۲۰ء کے بعد شمالی اور جنوبی کناروں پر دونوں فریق نے جو بھی تعمیرات کی ہیں انھیں پوری طرح ہٹا دیا جائے گا۔ معاہدے میں یہ بھی طے پایا ہے کہ چین کے فوجی فنگر - ۸ سے پیچھے جائیں گے اور ہندوستان کے فوجی فنگر - ۳ سے پیچھے دھن سنگھ تھاپا پوسٹ پر۔د ونوں ملک روایتی فوجی گشت کو فی الحال روک دیں گے۔ فوجی گشت اس وقت دوبارہ شروع کی جائے گی جب آئندہ کی گفتگو میں تنازعات حل کرلئے جائیں گے۔
معاہدے کے بارے میں اس بات کا ذہن میں ہونا بھی ضروری ہے کہ یہ معاہدہ صرف ایک خاص رقبے کے بارے میں ہے جہاں زیادہ تنازع تھا۔ شمال میں ’ڈیپ سانگ میدان‘ اور جنوب میں گلوان کی وادی سے متعلق کئی تنازعات کا حل ہونا ابھی باقی ہے۔ اس کے باوجود جو معاہدہ ہوا ہے وہ اہمیت کا حامل ہے کہ اس سے کسی لمحے بھی سرحد پر لڑائی چھڑ جانے کا خطرہ کم ہوا ہے۔ اس پندرہ دن کے آخر میں کیلاش رینج سے ہندوستانی فوجیوں کو ہٹایا جائے گا۔ اسی رینج میں پینگونگ کے جنوبی علاقے کی وہ چوٹیاں ہیں جہاں ہندوستانی افواج تعینات کردی گئی ہیں اور چین کے تیور میں نرمی بھی اسی لئے آئی ہے کہ ہندوستانی فوجیں جنوبی سمت کی پہاڑیوں پر تعینات ہیں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ چین اور ہندوستان کے سرحدی تنازعات کے مستقل حل میں ابھی بہت رکاوٹیں ہیں مگر جو معاہدہ ہوا ہے اس سے یہ امید تو بندھی ہے کہ کشیدگی کم ہونے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ ہند چین سرحد کے تمام تنازعات کے حل کا باعث ہوگا اور چین کی ہندوستانی علاقوں میں در اندازی بھی ختم ہوجائے گی۔ تنازعات تو پہلے بھی تھے مگر تنازعات کے باوجود دونوں ملک اعتماد کی فضاء میں کام کررہے تھے۔ اچانک گذشتہ جون میں حالات خراب تر ہوگئے۔ معاہدے کے سلسلے میں بھی کافی خدشات اور اعتراضات تھے اس کے باوجود ایک خاص رقبے کے متعلق دونوں ملکوں میں اتفاق رائے ہوا اور دونوں ملکوں کی فوجیں ہٹنا شروع ہوگئیں۔ فوجوں کو ہٹانے اور معاہدے کے تمام پہلوئوں پر عمل کرنے میں اگر مستعدی دکھائی گئی تو دوسرے معاملات کے حل کی امید بھی بڑھے گی۔
چین اور ہندوستان کی مسلح افواج کئی مہینوں سے ایک دوسرے کے سامنے تھیں۔ غلط فہمی ہی نہیں بے ضابطگی کے سبب بھی جنگ چھڑ جانے خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ بہت چھوٹے سے علاقے کے لئے جو اتفاق رائے ہوا ہے وہ اعتماد بحالی کی سمت ایک مضبوط قدم ہے۔ اس مفہوم میں اس معاہدے پر غور کیا جائے تو اس کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے بشرطیکہ پینگونگ جھیل کے شمالی اور جنوبی کناروں کے بارے میں جو معاہدہ ہوا ہے ایمانداری کے ساتھ اس پر عمل درآمد ہو۔ ایمانداری کے ساتھ لفظ سمجھداری کا بھی اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ ایسا اس لئے ضروری ہے کہ ہمارے سابق فوجی سربراہ اور موجودہ وزیر وی کے سنگھ نے ایک پروگرام میں کہہ دیا تھا کہ حقیقی کنٹرول لائن کے پاس گشت کرنے والے دونوں ملکوں کے فوجیوں کی بھول سے دوسرے علاقے میں چلے جانے یا حقیقی کنٹرول لائن پار کرجانے کی غلطی ہوجاتی ہے۔ چین نے اسی بیان کو اُچک لیا اور اپنی حرکتوں کو جائز ٹھہرانے کی کوشش کی۔ وزارتِ خارجہ کے حوالے سے بھی کچھ ایسے بیانات آئے تھے جو وضاحت طلب تھے۔ ظاہر ہے ہندوستان کا یہ موقف نہیں ہے یہاں یہ یاد دہانی ضروری ہے کہ جو لوگ ذمہ دار عہدوں پر فائز ہیں انھیں بیان دینے میں محتاط ہونا چاہئے۔ پھر بھی اس حقیقت کو تو تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ وی کے سنگھ نے جو کہا یا ان کی زبان سے جو نکل گیا اس کی بنیاد پر ہندوستانی علاقوں میں گھس کر قبضہ جمانے کی چینی کوششوں کو کوئی بھی جائز نہیں ٹھہرا سکتا۔ چین کے ایسا کرنے کے سبب جو کشیدگی پیدا ہوئی اور جس کے سبب جنگ چھڑ جانے کا خطرہ پیدا ہوگیا اس کو کسی دوسرے ملک کو ثالث بناکر حل نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اچھا ہوا کہ ہندوستان اور چین نے خود گفتگو کے ذریعہ یہ مسئلہ حل کرلیا۔ اگرچہ یہ حل چین کے ساتھ ہندوستان کے سرحدی تنازعے کا مکمل حل نہیں ہے مگر اس سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ یہ حل مکمل حل کی طرف ایک مثبت قدم ہے۔
سرحد کے دونوں طرف ہندوستان اور چین کی فوجوں کی بڑی تعداد تعینات تھی۔ چین کے حق میں یہ صورتِ حال بہتر تھی کہ وہ اپنے فوجیوں کی بڑی تعداد کا فائدہ اٹھا کر سرحدی علاقوں میں بہتر انفراسٹرکچر تیار کرسکتا تھا۔ نئی بستیاں بسا سکتا تھا اور پاکستان کی مدد سے عالمی تجارت کے لئے نیا روٹ تیار کرسکتا تھا۔ مشرقی لداخ میں ہندوستان کی فوجیں بھی تعینات ہیں اور ان کی تعداد بھی کم نہیں ہے مگر ہندوستان کا ایسا کوئی منصوبہ پہلے کبھی تھا نہ اب ہے۔ اچھا ہوا کہ فوجوں کی واپسی کا سلسلہ شروع ہوگیا مگر یہ کوشش جاری رہنی چاہئے کہ آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے اور وہ تمام تنازعات حل ہوجائیں جو چین اور ہندوستان کو اکثر ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑا کردیتے ہیں۔ ہندوستان کسی بھی ملک کی زمین پر قبضہ جمانے میں دلچسپی نہیں رکھتا مگر وہ بہر قیمت اپنی زمین کی حفاظت کرنا بھی جانتا ہے۔
ادھر کچھ عرصے سے ہندوستان نے جو اقدامات کئے یا بیانات دیئے ہیں ان سے چین کو یہ تو معلوم ہوہی گیا کہ آج کا ہندوستان ۱۹۶۲ء کے ہندوستان سے بہت مختلف بھی ہے اور طاقتور بھی۔ اس کی طاقت اپنے ملک اور زمین کی حفاظت کے لئے استعمال نہیں ہوگی تو کس کے لئے ہوگی؟