Inquilab Logo Happiest Places to Work

چھٹی ہوتی ہے پر نہیں ہوتی

Updated: December 13, 2021, 1:27 PM IST | Asad Allah | Nagpur

’چھٹی کا مبارک دن کئی نا مبارک دنوں کے بعد آ تا ہے ‘۔ہمارا یہ ارشادہمار ے دوست مبارک علی کے کان میں پڑنا تھا کہ وہ مر نے مارنے پر تل گئے یہ کہتے ہوئے،’ جنابِ عالی کوئی دن مبارک یا نا مبارک نہیں ہوتا۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

’چھٹی کا مبارک دن کئی نا مبارک دنوں کے بعد آ تا ہے ‘۔ہمارا یہ ارشادہمار ے دوست مبارک علی کے کان میں پڑنا تھا کہ وہ مر نے مارنے پر تل گئے یہ کہتے ہوئے،’ جنابِ عالی کوئی دن مبارک یا نا مبارک نہیں ہوتا۔یہ صفات ہیں ہماری اور آ پ کی کرتوت کی ۔ہم اور آ پ ،مبارک اور نا مبارک یہ الفاظ انھوں نے جس ترتیب سے استعمال کئے تھے  اس کے پیشِ نظر ہمیں اندازہ ہو گیا کہ اس جھگڑے میں آ خرہم ہی منہ کی کھائیں گے ،کیونکہ برائے نام ہی سہی وہ بہر حال مبارک تھے اور ہم نا مبارک ۔ ہم اس بحث کو اس لئے بھی ختم کر نا چاہتے تھے کہ اس دن چھٹی تھی جو دو بحث کر نے والوں کے لئے بڑی جان لیوا ہوا کر تی ہے ۔ہم نے بات ٹالنے کے لئے کہا۔خیر جانے دیجئے  ۔ یوں سہی کہ چھٹیوں کا دن بہت دنوں بعد آ تا ہے ۔کہنے لگے یہ بھی غلط  میرے لئے تو ہر دن چھٹی کا دن ہے لہٰذا اس کے جلد یا دیر سے آ نے کا سوال ہی پیدا نہیں  ہوتا۔ ہم نے بات ختم کر نے کی غرض سے کہہ دیا۔یہ بھی ٹھیک ہے ۔ اس پر مبارک علی چراغ پا ہو کر کہنے لگے ۔بھلا یہ کیسے ٹھیک ہے ۔
 پھر یہ چار چار اتوار کیوں ہو ا کر تے ہیں ۔سر کار چھٹیوں کا اعلان کیوں کر تی ہے ۔مجبوراً ہمیں کہنا پڑا کہ حضور یہ چھٹیاں ان لوگوں کے لئے ظاہر کی جاتی ہیں جو ہفتہ بھر آ فس میں کر سیاں توڑتے ہیں ،خوابِ خرگوش کے مزے لیتے ہیں اور کئی ہفتوں سے ٹالے گئے کام کو مزید ٹالنے کی خدمت انجام دیتے ہیں ۔اس قسم کے لوگ کم از کم چھٹی کے دن تو کام کے آ دمی بن کر دکھائیں اس لئے ہوا کر تی ہیں یہ چھٹیاں ۔ اس پرمبارک علی کا منہ اور ہماری چھیڑی ہو ئی نا مبارک بحث بند ہو گئی ۔
 لوگوں کے  لئے چھٹی خواہ کچھ بھی کیوں نہ ہو کوئی ہم سے پوچھے کہ چھٹی کیا ہو تی ہے تو ہمارا جواب ہو گا ۔  وہ قبرستان جس میں تما م مصروفیات آسودہ خاک ہوں اور آ سودگی خاک نہ ہو چھٹی کا دن کہلاتا ہے ۔ چھٹیاں  جنہیںعرفِ عام میں سنڈے یا پبلک ہالی ڈے کہا جاتا ہے صرف انسانوں کو میسر ہیں فرشتوں کا نظام اس سے عاری ،چرندوں پرندوں میں یہ تعطیلات ابھی ڈکلیئر نہیں ہوئی ہیں ۔سمندری مخلوقات کو بھی اس کی ہوا نہیں لگی اور ہوا میں اڑنے والوں نے بھی ابھی اس قدر اونچا اڑنا نہیں سیکھا کہ ایک دن چھٹی منائیں اور نہ ملے تو برا مان جائیں چھٹی کاجواز غالب کے اس مصرع میں موجود ہے ۔ 
رکتی ہے مری طبع تو ہو تی ہے رواں اور 
 رواج البتہ اس کاغالب کے بہت پہلے سے چلا آ رہا ہے ۔ شاید اس تمثیل سے ماخوذہے کہ خدا نے چھ دنوں میں کائنات بنائی اور ساتویں دن آ رام کیا۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ سب کو اپنے جیسا ہی سمجھتے ہیں ۔ہم اس بات سے قطعی متفق نہیںکیونکہ خدا کو نہ نیند آ تی ہے نہ اونگھ اور نہ وہ تھکتا ہے۔یہی تو وہ کمزوریاں ہیں جن کی بدولت ہم انسان بنے ہوئے ہیں۔اسی لئے خدا کی بنائی ہوئی اس وسیع و عریض کائنات کو سمیٹتے سمیٹتے ہر ساتویں دن ہمیںآ رام کی ضرورت پیش آ تی ہے مگر اس دنیا میں بے شمار خدا کے بندے اور بندیاں ایسی ہیں جنھیں بڑے پیار سے یہ سمجھا دیا گیا ہے کہ آ پ تو طاقت کے پہاڑ ہیں ، آ پ کو آ رام کی کیا ضرورت ! 
 جن لوگوں کو یہ چھٹیا ں نصیب ہیں وہ خود کو کمزور خیال کریں نہ کریں خود کو اس نعمت کاحقدار سمجھتے ہیں  اور اس دن ہوتا کیاہے ۔لوگ آ زادی کے ساتھ مٹر گشتی کرنے کے علاوہ اخباروں، رسالوں ،ٹی وی ،دوستوں اور ان کی نجی زندگیوں میں جھانکتے ہیں ۔سرِ شام سجی سنوری بیویوں کوبائیک پر بٹھا کرگھومنے نکل پڑتے ہیں ۔وہی بیویاں جو ہفتہ بھر شوہر کا ناک میں دم کئے رہیں، اس مبارک گھڑی میں اپنی ناک اونچی کئے ایک ہاتھ شوہر کے کاندھے اور دوسرا اس کی جیب پر رکھتی ہیں ۔یہ حال تو عام چھٹیوں کا ہے۔ انفرادی چھٹیاں ذرا مختلف قسم کی ہوتی ہیں اس دن ہماری خوشی دگنی ہو تی ہے۔ اس دن ہمیں اپنے سبک بار ہو نے اور دوستوں کے کاندھے آفس کے کام سے گراں بار ہو نے کی انتقامی خوشی ہوتی ہے ۔ ظاہرہے انفرادی مسرت اجتماعی خوشی سے عظیم تر ہے ۔
 چھٹیوں کے لئے ہمارے ہاں لفظ رخصت بھی مستعمل ہے ۔ممکن ہے اس میں چھٹی کے دن فرصت کے رخصت ہو نے کی طرف اشارہ ہو۔ جن ملازمین کے مقدر میں ڈیوٹی سے لطف اندوز ہونا اور چھٹی کو بھگتنا لکھا ہے  ان کے نزدیک چھٹی ان بد نصیب لمحات سے عبارت ہے جنھیں فضول کاموں نے اغوا کر لیا ہو ۔ چھٹیاں خواہ کسی قسم کی کیوں نہ ہوں مصروفیات میں اضافہ کر نا ان کا اولین مقصد  ہے۔ میرے دوست مسٹر میم نے جب ایک نئے شہر جانے کا قصد کیا تو میں نے رسماًپوچھ لیا ۔نام اس شہر کا ؟ جواب ملا مصروفیات کا شہر ۔ وہاں کسی سے ملاقات کر نا  ہے۔میں نے مسٹرمیم سے دوبارو پوچھا کہنے لگے ہاں اپنے آ پ سے ؟ اور پھر وہ لمبی رخصت پرچل د ئیے ۔
  انہوں نے سچ ہی کہا تھا در اصل ہم ہفتہ بھر میں بیسیوں لوگوں سے ملتے ہیں اور نہیں مل پاتے تو اپنے آ پ سے ۔ ہماری زندگی چھٹی اور ڈیوٹی دو ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے اور ہم خود بیوی ، بچوں ، دوستوں ،دشمنوں ، پڑوسیوں وغیرہ سیکڑوں خانوں میں تقسیم ہوچکے ہیں۔ خدا جانے ہم نے اپنے وقت کو تقسیم کر رکھا ہے یا وقت نے ہمارے ٹکڑے کر د ئیے۔ تعطیلات عام طو رپرمنہ کا مزہ بدلنے کے لیے شیرینی کی طرح تقسیم ہوتی ہیں ۔زندگی کی گاڑی عام طور پر ایک سپاٹ شاہراہ پر سلامتی کے ساتھ گزرتی ہے ۔چھٹی کے دن ہم اس گاڑی کو کسی پگڈنڈی یا کچے راستے پر اتار لاتے ہیں کہ اس کے نشیب و فراز پر میسر آ نے والے جھٹکوں سے اپنے آ پ کو تہہ و بالا کر کے اس راستے  سے لطف اندوز ہو سکیں ۔زندگی کا اصل لطف یہی تو ہے کہ ہم ٹریفک کے قوانین کی گرفت سے آ زاد ہوکر اپنی مٹھی میں آ جائیں ۔آ فس ٹائم کی پابندی بھی ہٹ جاتی ہے ۔ ہم اپنا ٹائم ٹیبل خود مرتب کرنے کے لیے آزاد ہوتے ہیں ۔اگر ٹائم ٹیبل سے خداواسطے کا بیر ہوتو صبح سو کر اٹھنے سے لے کر بیوی بچوں سمیت تھیٹر پہنچنے جیسے اہم کام اس قدر بے وقت انجام دیں کہ آ خر ٹکٹ نہ ملنے پر منہ لٹکائے ہوئے گھر واپس آ ناپڑے۔فرق بس اتنا ہے کہ اس قسم کی کار کردگی پرآفس میں ایک ایک پوائنٹ یعنی نقطہ پر صلواتیںسننی پڑتی  ہیں اور یہاں بیوی بے نقط سناتی ہے ۔ غلط تو بہر حال ہر جگہ آ پ ہی ہوتے ہیں ۔ مثلا دیر سے پہنچنے پر فلم کی ٹکٹ نہیں ملی تو اک صاحب اور ان کی بیگم کو کسی نے مشورہ دیا کہ دو  ڈھائی گھنٹے اور رک جائیے اگلا شو مل جائے گا۔  وہ رک گئے مگر جب میاں نے بیوی کو یاد دلایا کہ اگر تم وقت پر تیار  ہو جاتیں تو یہ انتظار نہ کر نا پڑتا۔بیگم کے پاس بھی معقول جواب موجود تھا کہ اگر آ پ نے اتنی جلدی نہ مچائی ہوتی تو ہم ٹھیک دوسرے شو کے وقت یہاں آتے۔انتظار کر نا پڑ رہا ہے تو ا س کے ذمہ دارآ پ ہیں ۔  عموماً چھٹی کے دن نہ ٹیبل ہمارے سامنے ہوتا ہے نہ ٹائم سر پر سوار رہتا ہے ۔ در اصل ہفتہ بھر ہمارا آ فس ہمیں ایک گڈریے کی طرح ہانکتا ہے۔ سنیچر کی شام یہ ہوتا ہے کہ ہم اس کے ہاتھ سے لکڑی چھین کر خود گڈریا بن جاتے ہیں اور اتوار کا دن ایک نرم و نازک سی بھیڑ۔سوموار کو گڈریے کی وہی لکڑی لوٹا کر ہم پھر ایک سعادت مند بھیڑ کی طرح وقت کی چراگاہ میں چرنے لگتے ہیں ۔در اصل  وقت کو اپنی مرضی کے مطابق ہانکنے کااحساس ہی چھٹی کے دن کو چھٹی کا دن بناتا ہے ۔ چھٹی کے د ن ٹائم ٹیبل آ فس کے سخت گیر ہاتھوں نے نکل کر ایک نرم و نازک کبوتر کی طرح ہمارے ہاتھ میں آ جاتا ہے ۔ ابھی ہم اسے فضا میں اڑانے کا خواب ہی دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ وہ بیوی ، بچوں ،دوستوں ، دشمنوں ،ملنے جلنے والوں حتی ٰ کہ سائیکل کاپنکچر اور جوتے کا تلا درست کرنے والوں کے ہاتھوں میں پہنچ کر ان کی چھینا جھپٹی کے بعد چھٹی کے دن کے بے ڈھنگے سے ٹائم ٹیبل میں ڈھل جاتا ہے ۔
 عام طور پر چھٹیوں کا جو حشر ہوتا ہے وہ یہ کہ آ پ اس خاص دن سے لطف اندوز ہونے کی تمنا لے کر گھرپہنچتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ سلیپر کے ایک پٹے نے تلے سے عہدِ وفا توڑ دیا ہے ۔  چائے کی پتی اور چینی رخصت پر ہیں ۔ننھے صاحب زادے کو آ ئسکریم کی طلب آ تش زیر پا  کئے ہوئے ہے ۔ گھر بھر میں آ پ کا غم گسار ہے تو بس ایک نل جو آ پ کی چھٹی کو بر باد ہوتا دیکھ کر آ نسو بہا رہا ہے ۔ اس پر بیگم یہ حکم صادر کر دیتی ہیں کہ یہ نل بہت ٹپک رہا ہے آ ج آ پ کو چھٹی ہے تو اسے بدلوا لیجئے ۔چنانچہ آپ اس نل کو تبدیل کر نے میں جٹ جاتے ہیں کہ آ پ سے بھی اس کے آ نسو نہیں دیکھے جاتے ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK