EPAPER
Updated: February 08, 2022, 1:38 PM IST
ے کئے جائیں جن سے ووٹوں کے ارتکاز (پولرائزیشن) کا فائدہ اُترپردیش میں حاصل کیا جاسکے جہاں پہلا انتخابی مرحلہ ۱۰؍ فروری کو ہے۔ دوسری وجہ بھی انتخابی نوعیت ہی کی ہے۔
کرناٹک میں حجاب پہننے والی طالبات کے خلاف محاذ آرائی کے دو بہت واضح مقاصد ہیں۔ ایک یہ کہ ایسے تنازعات کھڑے کئے جائیں جن سے ووٹوں کے ارتکاز (پولرائزیشن) کا فائدہ اُترپردیش میں حاصل کیا جاسکے جہاں پہلا انتخابی مرحلہ ۱۰؍ فروری کو ہے۔ دوسری وجہ بھی انتخابی نوعیت ہی کی ہے۔ کرناٹک کا اسمبلی الیکشن بھی اب زیادہ دور نہیں ہے۔ یہ سب ہندوتوا تنظیموں کی سازش ہے جو حکمراں جماعت کو فائدہ پہنچانے کیلئے سرگرم ہیں۔ اس سے پہلے دھرم سنسد میں کیا کچھ نہیں کہا گیا۔ اس کا مقصد بھی ووٹوں کے ارتکاز کیلئے فضا سازگار بنانا تھا۔ چونکہ اُترپردیش کے رائے دہندگان درجنوں وجوہات کی بناء پر بی جے پی سے ناراض ہیں جس کا بالواسطہ اعتراف خود بی جے پی کو ہے اس لئے ناراض رائے دہندگان کو بہت کچھ سمجھانے کے مقصد سے ہندوتوا تنظیمیں جوش میں آگئی ہیں ورنہ جن طالبات کے حجاب پہننے پر اعتراض کیا گیا وہ پہلے بھی حجاب پہنتی تھیں، تب کسی کو اعتراض نہیں تھا مگر اب ہے۔ حجاب کی مخالفت اتنا طول نہ پکڑتی اگر ریاست کی بومئی حکومت نے صورتحال کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ٹھوس اقدامات کئے ہوتے۔ اُڈپی کا پی یو کالج سرکاری کالج ہے۔ ریاستی پولیس نے کیوں معاملے میں مداخلت نہیں کی اور حجاب کی مخالفت کرنے والوں سے کیوں باز پُرس نہیں کی؟ کیا پی یو کالج کی پرنسپل رُدرا گوڑا کی اُسی دن تقرری ہوئی تھی جس دن یہ تنازع کھڑا ہوا؟ یقیناً اُن کی تقرری اُسی دن نہیں ہوئی تھی، پھر کیوں انہوں نے اچانک ’’کلاس میں یکسانیت‘‘ کی ضرورت پر زور دیا؟ اگر اُن کی تقرری اُسی دن ہوئی ہوتی تب بھی یہ سوال اپنی جگہ اہم ہوتا کہ اُن کے نزدیک یکسانیت (یونیفارمٹی) کیا ہے؟ اگر یکسانیت یا وحدت کا معنی یہ ہے کہ سب ایک جیسا لباس زیب تن کریں تو کیا خود اساتذہ ایک جیسا لباس پہنتے ہیں؟ جو شخص پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوتا ہے وہ طویل تعلیمی تجربہ رکھتا ہے۔ اس تجربے سے وہ علمی سطح پر بھی بہت کچھ سیکھتا ہے۔ کیا پرنسپل رُدرا گوڑا نے کثرت میں وحدت کا اُصول نہیں سیکھا؟ اگر وہ تعلیمی ادارہ سے وابستگی اور منصب ِمعلمی پر تقرری کے باوجود یکسانیت، وحدت یا یونیفارمٹی کی معنوی وسعت کو نہیں سمجھ سکی ہیں تو اُنہیں اس منصب پر فائز رہنے کا حق ہی نہیں ہے۔ انہوں نے شاید آئین کے ذریعہ بخشے گئے اُس حق کو بھی نہیں سمجھا جس سے ملک کے شہریوں کو اپنی پسند کا لباس زیب تن کرنے اور اپنی مذہبی اقدار کی پاسداری کی اجازت اور آزادی ملتی ہے۔ بہرکیف، یہ تنازع جو یکم جنوری کو اُڈپی سے شروع ہوا تھا، کرناٹک کے دیگر شہروں اور علاقوں میں بھی پھیل گیا (پھیلا یا گیا) اور پچھلے پانچ ہفتوں میں ایک بڑا تنازع بن چکا ہے۔ اس دوران حجاب کا مقابلہ کرنے کیلئے زعفرانی شال پہنی جانے لگی جسے فوری طور پر روکنا چاہئے تھا کیونکہ اس سے پہلے کسی درس گاہ میں ایسی کوئی شال نہیں پہنی گئی تھی جبکہ اسکارف یا حجاب ملک میں ہر جگہ مسلم خواتین کے لباس کا حصہ ہے۔ یہ اُن کی اپنی پسند اور فیصلہ ہے۔ اُنہیں حجاب پہننے سے روکنا اُن کا آئینی حق سلب کرنے اور کثرت میں وحدت کی ہندوستانی شناخت کو مجروح کے مترادف ہے۔ اس سے انتخابی فائدہ اُٹھانا تو ممکن نہیں کیونکہ جس طرح یوپی میں ہندوتوا کارڈ فیل ہورہا ہے، دیگر ریاستوں میں بھی ہوگا۔ ملک کے رائے دہندگان اچھی طرح جان چکے ہیں کہ ایسے تمام تنازعات عوام کے بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے کے مقصد سے ایک سازش کے طور پر پیدا کئے جارہے ہیں ۔