Inquilab Logo Happiest Places to Work

حکیم اجمل خان کےخطبات آج بھی ہمیں دعوت ِغوروفکر دیتے ہیں

Updated: February 11, 2022, 11:54 AM IST | Dr. Syed Mohammad Hassan Nagrami | Mumbai

؍۱۱؍فروری کو یوم اجمل مناتے ہیں، منانابھی چاہئے کہ زندہ قوموں کی علامت ہے۔ طب یونانی کی نشاۃ ثانیہ حکیم اجمل خان کا سب سے اہم کارنامہ ہے،حکیم صاحب عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں کے ماہر تھے،بیرونی ممالک کے سفر کی وجہ سے ان کا تجربہ بہت وسیع تھا خاص طور سے صحت کے میدان میں انھوں نے جو کچھ دیکھااور سمجھااسے طب میں رائج کیا۔

Magnificent building of Hakim Ajmal Khan Hospital in Rampur.Picture:INN
رام پور میں واقع حکیم اجمل خان اسپتال کی شاندار عمارت، انسیٹ میں حکیم اجمل خان۔ تصویر :آئی این این

؍۱۱؍فروری کو یوم اجمل مناتے ہیں، منانابھی چاہئے کہ زندہ قوموں کی علامت ہے۔ طب یونانی کی نشاۃ ثانیہ حکیم اجمل خان کا سب سے اہم کارنامہ ہے،حکیم صاحب عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں کے ماہر تھے،بیرونی ممالک کے سفر کی وجہ سے ان کا تجربہ بہت وسیع تھا خاص طور سے صحت کے میدان میں انھوں نے جو کچھ دیکھااور سمجھااسے طب میں رائج کیا۔بدلتے حالات پر انکی گہری نظر تھی خوبیوں کو اپنانے اور خامیوں سے پرہیز کرکے نئی راہ دکھائی اس حوالہ سے طب کی خامیوںکا انھوں نے گہرا مطالعہ کیااور ڈنکے کی چوٹ پرانکو بیان کیااور وہ ہمیشہ وہ کہتے رہے کہ ہم طب کو مکمل اور نقص سے آزاد سمجھ کرعہد حاضرکے تقاضے نہیں پورا کر سکتے۔انہوں نے نے۱۹۰۶ء میں پہلی طبی کانفرنس میں اپنے خیالات کا اس طرح اظہار کیا تھا:  ـ ’’آج کل ہم لوگوں کو نئی روشنی کے زمانہ میں ایک مقابلہ در پیش ہے۔ طب یونانی کی جو حالت ہمارے ہاتھوں ہو رہی ہے وہ ظاہر ہے۔ہمارے یہاں جدید تصنیف و تالیف کا سلسلہ بند ہے۔نصاب تعلیم میں بہت تھوڑی کتابیں داخل ہیںجو ضروریات زمانہ پر نظر کر کے کافی نہیں معلوم ہوتیں۔قانون شیخ الرئیس منتہائے تعلیم سمجھا جاتا ہے۔بہت سے نئے امراض پیدا ہوگئے ہیں جن کی تدوین کی ضرورت ہے۔ گیلانی( حکیم علی)نے قانون شیخ کی شرح لکھتے ہوئے ہر عضو کے امراض کی تشریح ختم کر کے آخر میںبہت سے وہ امراض اور ان کے اسباب و علامات اور معالجات اپنی طرف سے اضافہ کئے  ہیں جو شیخ نے نہیں لکھے تھے۔ایک اور تآسف کی بات یہ کہ طب یونانی کا بہت بڑا ذخیرہ برباد ہو رہا ہے اور ہم لوگوں کو اس کا احساس تک نہیں ۔جالینوس کی تمام کتابیں ہمارے نصاب سے چھوٹی ہوئی ہیں،لیکن اس کی قریب قریب کل کتابوں کا ڈاکٹر صاحبان نے ترجمہ کر لیا ہے۔ ہمارے ذخیرئہ ادویہ کی حالت بھی بہت کچھ اضافہ اور اصلاح کی محتاج ہے۔صرف ہندوستان میںبہت سی جڑی بوٹیاں ایسی موجود ہیں اور کوشش سے فراہم کی جا سکتی ہیں جو ہر طرح کارآماد اور مفید ہوں گی،لیکن ہم اس طرف مطلق توجہ نہیں کرتے ۔ ہمارے مجربات کی یہ حالت ہے کہ جس کے پاس کوئی نسخہ ہوتا ہے وہ اسے بری طرح چھپاتا ہے جس کا لازمی نتیجہ ہے کہ اسی کے ساتھ ختم یو جا تا ہے۔ــ‘‘ ایک اور جگہ اطباء کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:  ’’میں اطباء سے دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے طب یونانی کے بارے میں مطمئن کر سکتے ہیں کہ اس میں جملہ وہ مسائل موجود ہیں جو زمانہ موجودہ پائے جاتے ہیں۔یقیناً بہت سی باتیں ہمارے کورس کے اندر نہیں ہے لیکن طب کے دوسرے ذخیرے میں موجود ہیں،کیا ہم کویہ نہیں کرنا چا ہئےکہ بہت سے وہ مسائل جو جدید تحقیقات سے روشنی میں آچکے ہیں ان کو نصاب میںداخل کیا جائے؟میں سمجھتا ہوں کہ آپ پر لازم اور فرض ہے کہ اپنے کورس میں اصلاح کریں اور جدید تالیفات تیار کر کے اس کو مکمل کر دیں۔جب آب اس راستہ میں قدم رکھیں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ سدیدی،نفیسی،حمیات قانون وغیرہ آپ کے لئے کافی نہیں ہیں۔آپ کو پرانی کتب کی کھوج اور تلاش کر کے جدید تحقیقات کے ساتھ ملا کر نیا کورس بنانا ہوگا۔‘‘  حکیم صاحب کے یہ اقتباس ہمیں آج بھی دعوت فکر وعمل دیتے ہیں۔ افسوس کہ ہم طب جدید کا لبادا پہن کر ڈاکٹر تو بننا چاہتے ہیں مگر اپنی متاع گمشدہ کے جواہرات تلاش کرکے اس پر تحقیق و جستجو کو اہمیت نہیں دیتے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے فن کی کاملیت اور جامعیت کا نعرہ اپنے بزرگوں کی شاندار کہانیوں سے آگے نہیں بڑھتا اس کے علاوہ حکیم صاحب بہت سی خصوصیتو ں کے مالک تھے جو آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہے ۔  حکیم اجمل خاں بہترین خطیب تھے ان کی تقریریں ملک و ملت کی محبت کی داستان تھیںانھیں اس حیثیت سے بھی پڑھنا چاہئے۔وہ ہندو مسلم اتحاد کے انوکھے ترجمان تھے۔ وہ  کانگریس کے صدر تو تھے ہی،  ہندو مہا سبھا والوں سے بھی ان کے تعلقات تھے۔ حکیم اجمل خان واحد مسلم شخصیت تھے جنہوں نے ہندو مہاسبھا کے اجلاس کی صدارت کی تھی۔ یاد رہے کہ علاحدگی پسندی سےہم اپنے مسائل حل نہیں کر سکتے۔حکیم اجمل خان طب میں جدید تحقیق قدیم تحقیق میں نئی سمتوں کی تلاش میں سرگرم رہے ہمیں بھی اپنے مطالعہ کو اس انداز پر آگے بڑھا کر عہد جدید میں علاج کے نئے طریقوں کو اپنانا ہوگا۔انھوں نے یونانی طب کی نشاۃ ثانیہ کی نئی راہیں متعین کیں طب اور آیوروید کو غیر سائنسی بنانے کی انگریزوںکی سازش کے مقابلہ کے لئے،عملی منصوبے پیش کئے دور حاضر میں جدید کے مقابلہ میں ہمیں اپنی افاد یت  کو اور مفید اور موثر بنایا ہوگا اس کے لئے حجامہ لیق، مالش ،ریاضت کے بدلتے طریقوں کو نئے اور آسان انداز سے پیش کر کے سماج اور معاشرہ میں اپنا مقام و  معیاربحال کرنا ہوگا۔ بتانے کی ضرورت نہیں آج دوسرے ممالک میں ان طریقوں کو اپنا کر نئے نشانے  حاصل کئے جا رہے ہیں۔  حکیم صاحب دوائوں کی تیاری بطور خاص مرکبات کے بڑے ہمنوا تھے اس میدان میں بھی انھوں نے تحقیق کی نئی سمتیں متعین کیں یہاں صرف لکھنؤ اسکول کی مفردات کے اثرات  اور دہلی اسکول کے علاج بالمرکبات کی افادیت پر بحث کرنا مقصد نہیں ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم لکھنؤ طبی اسکول کے علاج بالمفردات بطور خاص گٹھیا، موٹاپا، سفید داغ اور دوسرے مادی امراض میں مفید منضج مسہل تھیراپی کو مشن کی طرح اپنائیں اور بہت سے لا علاج امراض کے لئے بہترین بدلفراہم کریں اسی طرح مرکبات اور دوائوں کی تیاری میں آج کے سماج کی پسند اور مقبولیت اور ترجیح کو سامنے رکھ کر معجون، خمیرہ،اطریفل اور شربت تیار کریں اس طرح ہم مفرد اور مرکب دونوں قسم کی یونانی دوائوں سے پورا فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔۔  حکیم اجمل خاں طبی تنظیم کے حوالہ سے بھی نئے تجربات کے بانی تھے وہ ملک کے حالات کے پیش نظر اور جنگ آزادی میں مشترک حصہ داری کیلئے لئے برابر جدوجہدکرتے رہے اس کے لئے انھوں نے ایک مضبوط پلیٹ فارم تیار کیا۔ ہمیں آج بھی اس فکرو خیال کو موثر انداز سے اس طرح اپنانا چاہئے کہ ہم انڈین سسٹم آف میڈیسن کے بینر تلے یونانی طب کے بنیادی دھانچے کو برقرار رکھتے ہوئے طب جدید کی  رعنائیوںکے سامنے ایک ٹھوس حکمت عملی بنا کر نزلہ،گٹھیا،موٹاپا اور جگر کے لئے مفرات کے جوشاندوں کو ٹی بیگ میں منتقل کر کے اس کے استعمال کو مزید آسان بنائیں۔  دور حاضر میں ذیابیطس ے تیزی سے پھیلتے ہوئے خطرات کے پیش نظر ہمیں خمیرہ اور معجون کی جگہ ان سے  ملتے جلتے اجزاءپر مشتمل نسخوں کو ٹیبلٹ اور کیپ سول میں پیش کرکے طبی دوائوں کی افادیت کو مزید موثر کرنے کی ضرورت ہے۔  ان تمام اوصاف اور خصوصیات کے ساتھ حکیم اجمل خاں طبی اخلاقیات کا بہترین نمونہ تھے حالانکہ وہ اپنے زمانہ میں لمبی اور بڑی تنخواہ اور فیس کی بڑی رقم لیتے تھے،لینا بھی چاہئے اس میں کوئی عیب نہیں لیکن حکیم صاحب کے طرز پر غریب پروری میں ضرورت مندوں کی امداد اور طب کو تجارت کا درجہ نہ دیکر اخلاقیات کا ایسا عملی نمونہ پیش کر کے سماج کو ایک پیغام ینے کی ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ بڑھتی کمیشن خوری،علاج کے نام پر لوٹ کھسوٹ اور جائزناجائز تمام چیزوں کے ذریعہ رقم کی حصولیابی ہمارے رزق سے برکت ختم کرنے اور زندگی سے سکون چھین لینے کا ذریعہ بن سکتی ہے جس میں ہم سب مبتلا ہوتے جا رہے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK