EPAPER
Updated: March 02, 2021, 1:02 PM IST
| Hasan Kamal
وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت جان بوجھ کر انجان بننے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن اسے خفیہ ایجنسیاں بتا چکی ہیں کہ اب بیروزگاروں کی فوج بھی کسانوں کے لئے کمک بن کر پہنچ رہی ہے۔ کم سے کم ۹۰؍ لاکھ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے مودی کے جنم دن ۱۷؍ فروری کو بیروزگار دِوس یا یوم بیروزگاری کے طور پر منایا ۔ شتر مرغ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب ریگستان میں طوفان آتا ہے تووہ ریت میں اپنی گردن دھنسا لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ چونکہ اب وہ طوفان کو نہیں دیکھ رہا ہے، اس لئے طوفان بھی اسے نہیں دیکھ رہاہوگا۔ لیکن طوفان گزرنے کے بعد اس پر انکشاف ہوتاہے کہ وہ طوفان کو نہیں دیکھ رہا تھا ، لیکن طوفان اسے اچھی طرح دیکھ رہا تھا چنانچہ اسکے ایک ایک بال و پر میں ریت کے ذرات اندر تک دھنسے ہوئے ہیں۔ مودی سرکار کا رویّہ بھی کچھ شتر مرغ جیسا ہی ہے۔ اس نے ملک کے نام نہاد مین اسٹریم میڈیا کو اپنے قابو میں کر لیا ہے۔ یہ میڈیا اسے دن رات بتاتا رہتا ہے کہ’’ ہندوستان میں سب چنگا سی‘‘ اس لئے واقعی ملک میں سب چنگا ہے۔ بر سبیل تذکرہ پنجابی زبان میں ’’سی‘‘ کے معنے ’’تھا‘‘ ہوتے ہیں۔ چنانچہ یہ درست ہے کہ ملک میں کبھی سب کچھ چنگا ضرور تھا۔ پنجابی میں ’’ہے ‘‘کیلئے ــ’’وے‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ملک میں ’’سب کچھ چنگا نہیں وے۔‘‘
یہ کہنا تو مشکل ہے کہ کیا واقعی مودی سرکار حقائق سے اس قدر بے گانہ ہے کہ ملک میں ’’سب کچھ چنگا نہیں ہے‘‘ پھربھی اسے سب کچھ چنگا نظر آرہا ہے۔ کیونکہ یہ تو نا ممکن ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعہ جو اَب سماعت اور بصارت کے اعتبار سے مین اسٹریم میڈیا کا مد مقابل بن چکا ہے، بلکہ اس سے آگے بھی نکل چکا ہے، اسے حقائق کے بارے میں جانکاری نہیں مل رہی ہو۔ عین ممکن ہے کہ مودی جی اور امیت شاہ اس سوشل میڈیا سے نا آشنا ہوں ، لیکن یہ ناممکن ہے کہ تمام پارٹی ورکرس اور لیڈر بھی اس سے نا آشنا ہوں۔ اس لئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ سرکارنے کوئی بھی بات ماننے سے مستقل انکار کرتے رہنے کا رویّہ اپنا لیا ہے۔ اس نے یہ مان لیا ہے کہ جو اس کے بتائے سچ کو سچ نہیں مانتے وہ راج دروہی ہیں اور انہیں اس کی سزا ملنی چاہئے۔ دِشا روی کی ضمانت منظور کرتے ہوئے ایڈیشنل سیشن جج دھرمیندر رانا نے جو عالمانہ فیصلہ سنایا ہے، وہ صاف بتا رہا ہے کہ طوفان ابھی دور سہی ، لیکن طوفان شتر مرغ کو دیکھ بہر حال رہا ہے۔
کسان آندولن بھی ایک ایسا ہی طوفان ہے، جس سے مودی سرکارنے اپنی گردن میڈیا کے اس پروپیگنڈے کی ریت میں گاڑ رکھی ہے کہ کسان تھک رہے ہیں اور آندولن کا زور ٹوٹ چلا ہے۔ہوتا یہ ہے کہ جب کچھ کسان فصل کاٹنے یا گنے کی فصل بیچنے کے لئے اٹھ کر چلے جاتے ہیں تو پالتو میڈیا یہ شور مچانے لگتا ہے کہ کسان تنگ آگئے ہیں اور گھر لوٹ رہے ہیں۔ یہ ایک عارضی معاملہ ہوتا ہے ۔ جو کسان جاتے ہیں، ان کی جگہ دوسرے کسان آجاتے ہیں۔ میڈیا نے ایک اور بھرم پھیلایا تھا اور بی جے پی کے لیڈر بھی اس بھرم میں پھنس گئے تھے۔ پہلے یہ مان لیا گیا کہ یہ ایک سکھ آندولن ہے۔ پھر یہ کہا گیا کہ یہ ایک جاٹ آندولن ہے۔ جب آندولن کا دائرہ مغربی یوپی تک پھیل گیا تو یہ مشہور کیا گیا کہ یہ صرف یو پی کے ان دس اضلاع تک محدود ہے، جہاں جاٹ اکثریت ہے۔ لیکن ہمیں اپنے ذاتی ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ آندولن اب مرکزی اور مشرقی یو پی کی طرف گامزن ہے۔ لکھنؤ اور بارہ بنکی کے دیہی علاقے بڑی تیزی سے اس کی لپیٹ میں آ رہے ہیں۔مودی سرکار جان بوجھ کر انجان بننے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن اسے خفیہ ایجنسیاں بتا چکی ہیں کہ اب بے روزگاروں کی فوج بھی کسانوں کے لئے کمک بن کر پہنچ رہی ہے۔ کم سے کم ۹۰؍ لاکھ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے مودی کے جنم دن ۱۷؍ فروری کو بے روزگار دِوس یا یوم بے روزگاری کے طور پر منایا ۔
دو اور طوفان بھی شتر مرغ کو اچھی طرح دیکھ رہے ہیں۔ پہلا طوفان ہندوستان اور چین کے درمیان لائن آف ایکچوئیل کنٹرول (ایل اے سی) میں پنپ رہا ہے۔ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بجٹ اجلاس کے آخری دن بلکہ آخری لمحوں میں لوک سبھا کو بتایا کہ لداخ سے لے کر اروناچل پردیش تک پھیلی ہوئی ایل اے سی پر ہندوستان اور چین میں اپنی اپنی فوجیں پیچھے ہٹا لینے کی بابت سمجھوتہ ہو گیا ہے اور یہ کہ دونوں ملکوں کی فوجیں جس طرح ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آمنے سامنے کھڑی تھیں، وہ کیفیت بہت جلد بدل جائے گی اور حالات بالکل نارمل ہو جائیں گے۔ لیکن سچ تویہ ہے کہ یہ آ دھا سچ تھا۔ پورا سچ یہ ہے کہ ہندوستانی فوج تو اس جگہ سے پیچھے ہٹ گئی ہے، جس پر اس نے قبضہ کر لیا تھا اور جو فوجی اعتبار سے ہندوستان کیلئے فائدہ مند ثابت ہو رہا تھا۔ یہ علاقہ کیلاش مانسروور کہلاتا ہے۔ یہ سناتن دھرمیوں کا ایک مقدس تیرتھ استھان خیال کیا جاتا ہے۔ ہندوستانی فوج اس چوٹی سے ایک چوٹی نیچے کی طرف ہٹ گئی ہے۔لیکن دیپسانگ ، گھوگرا اور دیگر علاقوں پر چینی فوجیں اب بھی موجود ہیں۔ متنازع ایل اے سی تمام کی تمام ہمالیائی رینج پر محیط ہے۔ چونکہ اس علاقہ میں پہاڑوں کی چوٹیاں انگلیوں کی شکل کی ہوتی ہیں، اس لئے جن چوٹیوں پر ہر دو ممالک کی فوجی چوکیاں ہیں انہیں فنگر کہا جاتا ہے۔ ایسی چودہ فنگرس ہیں۔ ہندوستانی فوج فنگر چار سے آگے گشت نہیں لگا سکتی۔ راج ناتھ سنگھ نے جس سمجھوتے کا ذکر کیا ہے، اس کے مطابق فنگر چار سے فنگر آٹھ تک کا علاقہ فوجوں سے خالی علاقہ مان لیا گیا ہے۔ اسے بفر زون کہتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس بفر زون میں چینی فوجیں تو گشت کر سکیں گی،مگر ہندوستانی فوج اب وہاں نہیں جا سکے گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ تمام علاقہ چین کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ میڈیا اور حکومت سمجھ رہی ہے کہ چونکہ عوام کو ان معاملات کے بارے میں زیادہ علم اور دلچسپی نہیں ہے، اس لئے یہ طوفان اٹھا بھی تو خاموشی سے گزر جائے گا۔ لیکن فوجی ماہرین اور سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے دنیا کی نظروں میں ہندوستان کی حیثیت کمزور ہو گئی ہے۔ عوام کو بھی یہ حقیقت کوسمجھتے دیر نہیں لگے گی۔
ایک اور بڑا طوفان امریکہ میں کروٹیں لے رہا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں رکنیت بحال کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ امریکہ اب پوری طاقت سے دنیا میں جہاں بھی انسانی حقوق کی پامالی کی جا رہی ہے ، اس کے خلاف آواز اٹھائے گا اور ضرورت پڑی تو کارروائی سے بھی گریز نہیں کرے گا۔ انسانی حقوق کی پامالی کا نام سنتے ہی ہمارے ملک میں کچھ دلوں کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں۔ ریاست جموں کشمیر کے بارے میں جو بائیڈن اور کملا ہیرس کے خیالات کا ساری دنیا کو علم ہے۔ اس نے گزشتہ ہفتہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کے معاہدہ کا خیر مقدم کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ کشمیر کے مسئلہ پر دونوں ممالک کو بات چیت کا فوراََ آغاز کرنا چاہئے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ کشمیر کے سوال پر بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے کسی پیش رفت میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔یہ طوفان بھی ٹکٹکی باندھے شتر مرغ کو دیکھ رہا ہے۔