EPAPER
Updated: March 16, 2021, 11:32 AM IST
| Hasan Kamal
ٹاٹئم میگزین نے کور پیج پر معمر بلقیس بیگم کی تصویر چھاپ کر انہیں دنیا کی سو با اثر ترین خواتین میں سے ایک قرار دیا تھا۔ اس بار بھی اسی میگزین نے ہریانہ اور پنجاب کی خواتین کی تصویر کور پیج پر چھاپی ہے اور انہیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ کسان آندولن کو ہندوستان ہی نہیں دنیا کا ایک تاریخی آندولن کہا جا رہا ہے۔ ہریانہ میں کھٹّرسرکار گرتے گرتے رہ گئی۔ بی جے پی اور اس کا زر خرید غلام میڈیا شادیانے بجانے لگا۔ اس کے خیال میں اس کا یہ مطلب ہے کہ ہریانہ میں کسان آندولن کا کوئی خاص اثر نہیں ہے۔ اسے جھوٹ سے خود بہلنے اور دوسروں کو بہلانے کے سوا کوئی اور نام نہیں دیاجا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہریانہ بی جے پی اور جن نائک جنتاپارٹی کے ممبرانِ اسمبلی کے سامنے اپنی سرکار کو ہر قیمت پر بچانے کے سوا کوئی راہ ہی نہیں تھی۔ اسے یوں دیکھئے کہ اگر سرکار گر بھی جاتی تو کوئی دوسری یعنی کانگریس کی سرکار بننے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ کانگریس کے پاس کل جمع ۳۰ ؍ ممبر ہیں۔ اگر جن نائک جنتاپارٹی کے دس ممبر کانگریس میں آ جاتے اور اگر کچھ دوسرے آزاد ممبر بھی اس کا ساتھ دے دیتے تو بھی ایک ایسی سرکار بنتی ، جو باقی ماندہ تین سال نہیں چل سکتی تھی۔ یعنی تھوڑے دنوں بعد ہی نیا الیکشن کرانے کی نوبت آجاتی۔ ایسی صورت میں بی جے پی اور دشینت چوٹالہ کی جن نائک جنتاپارٹی کا کیا حشر ہوتا یہ سب کو معلوم تھا۔
کسان تحریک کا دائرہ بھی وسیع تر ہو رہا ہے اور اس کے اثرات میں بھی روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔حال یہ ہے کہ ہریانہ اورپنجاب کے بی جے پی اور جن نائک جنتاپارٹی کے ممبران اپنے انتخابی حلقوں میں بھی جانے سے ڈر رہے ہیں۔ کسان انہیں اپنے دیہاتوں میں بھی نہیں آنے دے رہے ہیں۔ کئی ممبروں کی پٹائی بھی ہو چکی ہے۔ ایک مرکزی وزیرسنجیو بالیان کو ان کے اپنے گائوں میں بری طرح ذلیل کیا گیا۔ ان کالموں میں بتایا جا چکا ہے کہ کسان تحریک اور شاہین باغ تحریک میں بہت مشابہت پائی جاتی ہے۔ اب اس مشابہت میں ایک ا ور اضافہ ہوا ہے۔ جس طرح شاہین باغ تحریک کی قیادت بالآخرخو اتین کے ہاتھوں میں پہنچ گئی تھی، اسی طرح کسان آندولن کی قیادت بھی رفتہ رفتہ خواتین کے ہاتھوں میں پہنچ رہی ہے۔ ۸ ؍مارچ کو عالمی یومِ خواتین کے موقع پر پنجاب اور ہریانہ کے دیہاتوں سے ۵۰ ؍ ہزار خواتین دہلی کی سرحدوں پر آن پہنچیں۔ سب نے بسنتی رنگ کے لباس پہن رکھے تھے۔ انہوں نے بھگت سنگھ کے مشہور ترانے ’میرا رنگ دے بسنتی چولا‘‘ کو نسوانی لہجہ دے کر ’’میری رنگ دے بسنتی چنیا‘‘ کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ بچوں کے امتحانات ہونے والے ہیں، اس لئے ان میں سے کچھ تو واپس چلی جائیں گی، لیکن باقی یہیں رہیں گی اور امتحانات کے خاتمہ کے بعد ان کی اور بھی بڑی تعداد یہاں آ جائے گی۔ یاد رہے کہ شاہین باغ تحریک عالمی توجہ کا مرکز اسی وقت بنی تھی، جب دنیا نے خانہ دار خواتین کو پہلی بار اپنے آئینی حق کی لڑائی لڑتے دیکھا تھا۔ اس وقت بھی امریکہ کے ٹاٹئم میگزین نے کور پیج پر معمر بلقیس بیگم کی تصویر چھاپ کر انہیں دنیا کی سو با اثر ترین خواتین میں سے ایک قرار دیا تھا۔ اس بار بھی اسی میگزین نے ہریانہ اور پنجاب کی خواتین کی تصویر کور پیج پر چھاپی ہے اور انہیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ کسان آندولن کو ہندوستان ہی نہیں دنیا کا ایک تاریخی آندولن کہا جا رہا ہے۔
مودی سرکار کیلئے سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ اس کی یہ دلیل کوئی نہیں سن رہا ہے کہ یہ ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہے اور اس میں کوئی دوسرا ملک دخل نہیں دے سکتا۔ سب سے پہلے کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کسان آندولن کی طرفداری کی تھی۔ انہوں نے تحریک کو کچلنے کیلئے ہریانہ اور پھر مرکزی سرکاروں نے جو پر تشدد راستے اختیار کئے تھے، ان کی کڑی مذمت کی تھی۔ مودی سرکار نے کینیڈا کے وزیر اعظم سے نہایت سخت لہجہ میں کہا تھا کہ انہیں ہندوستان کے اندرونی معاملات میںمداخلت کا کوئی حق نہیں ہے اور یہ کہ ہندوستان اس مداخلت کو قطعی برداشت نہیں کرے گا۔ سخت لہجہ بہت سوچ سمجھ کر اور جان بوجھ کر اختیار کیا گیاتھا، مودی سرکار کے مشیروں نے اس کی صلاح اس لئے دی تھی کہ اس سے دوسرے ممالک کو یہ پیغام مل جائے گا کہ ہندوستان جیسے عظیم الجثہ ملک کو ناراض کرنا درست نہیں ہوگا۔ دوسرے ممالک کویا تو یہ پیغام مل نہیں سکا یا پیغام کو سمجھنے سے انہوں نے انکار کر دیا ۔ پہلے تو صرف کچھ بین الاقوامی انسانی حقوق کے ادارے کسان آندولن کی طرف حکومت ہند کے رویّہ کی نکتہ چینی کرتے رہے، مودی سرکار جن کی سنی ان سنی کرتی رہی۔ لیکن اچانک یہ خبر آئی کہ برطانیہ کی دونوں پارٹیوں یعنی کنزرویٹو اور لیبر کے ممبران، پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں کسان آندولن پر بحث چاہتے ہیں۔ یہ خبر خاصی پریشان کن تھی۔ اگر یہ ممبران ایوان سے باہر بیان بازی کرتے تو شاید ہندوستان کو زیادہ فکر نہ ہوتی اور اسے اندرونی معاملہ میں مداخلت کہہ کر حسب معمول ٹال دیا جاتا۔ لیکن دو باتیں بہت اہم تھیں، جن کی وجہ سے مودی سرکار کو پریشانی کا سامنا تھا۔ ایک تو برطانیہ میں اس وقت کنزرویٹو پارٹی کی حکومت ہے۔ اس پارٹی کو بی جے پی خود سے زیادہ قریب پاتی ہے، کیونکہ دونوں پارٹیاں دائیں بازو کی پارٹیاں سمجھی جاتی ہیں۔ دوسرے بورس جانسن کو مودی اپنے دوستوں میں شمار کرتے ہیں۔ چنانچہ برطانوی پارلیمنٹ میں کسان آندولن پر مباحثہ یہ پیغام دیتا ہے کہ برٹش سرکار کسان آندولن کے حوالے سے مودی سرکار سے متفق نہیں ہے۔ پھر جب یہ مباحثہ ہوا تو بات کسان آندولن تک محدود نہیں رہی۔ مباحثہ میں سی اے اے، اقلیتوں سے زیادتیاں اور میڈیا کی آزادی جیسے معاملات بھی زیر بحث آئے۔ ہندوستان نے اس پر سخت احتجاج کیا۔ برطانوی ہائی کمشنر کو طلب کر کے سرزنش کی گئی۔ لیکن حکومت برطانیہ نے ہائی کمشنر کی طلبی پر سخت اعتراض کیا۔ بورس جانسن نے خود کہا کہ ہر چند کہ زرعی قوانین ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہے، لیکن کسانوں کے ساتھ جو کچھ کیا جا رہا ہے، اس پر حکومت برطانیہ خاموش نہیں رہ سکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں لاکھوں ایسے ہندوستانی نژاد شہری ہیں جن کے عزیز واقارب ہندوستان میں رہتے ہیں اور انہیں ان کی فکر رہتی ہے۔
دنیا اب ایک گلوبل ولیج میں بدل چکی ہے۔ تمام ممالک ایک دوسرے سے کسی نہ کسی طور معاشی اور تجارتی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ آج کوئی معاملہ کسی ملک کا اندرونی معاملہ نہیں رہ گیا ہے۔ انسانی حقوق کے معاملات تو بالکل کسی ملک کے اندرونی معاملات رہ ہی نہیں گئے ہیں۔ جہاں بھی انہیں پامال کیا جاتا ہے ساری دنیا میں چیخ پکار مچ جاتی ہے۔ اگر فریڈم ہائوس کی رپورٹ میں ہندوستان کو نیم آزاد ملک قرار دیا گیا ہے اور اگر سویڈن کے سرکاری ادارے نے اپنی رپورٹ میں یہ کہا کہ ہندوستان ۲۰۱۴ ءکے بعد انتخابات کی راہ سے ڈکٹیٹرشپ میں تبدیل کیا جا رہا ہے اور وہاں ایک ہندو راشٹر کا تصور زور پکڑتا جارہا ہے تو اس پر اندرونی معاملات کا واویلا مچانے کے بجائے اس کا سدباب کیا جانا چاہئے۔