EPAPER
Updated: December 25, 2020, 9:53 AM IST
| Editorial
زیادہ وقت نہیں گزرا ہے جب قومی سیاست میں بائیں بازو کی پارٹیوں کا اپنا حصہ اور اثرورسوخ تھا۔ کیرالا ، مغربی بنگال اور تری پورہ میں ان کی حکومت تھی۔ زیادہ وقت نہیں گزرا ہے جب قومی سیاست میں بائیں بازو کی پارٹیوں کا اپنا حصہ اور اثرورسوخ تھا۔ کیرالا ، مغربی بنگال اور تری پورہ میں ان کی حکومت تھی۔ تھوڑا اور پہلے جائیں تو مرکزی حکومت میں بھی ان کی حصہ داری تھی اور ان کے حمایت واپس لینے سے حکومت کے ٹوٹنے کا خطرہ پیدا ہوتا تھا۔بعد کے حالات نے اس کیلئے مواقع کم کردیئے جبکہ لبرلائزیشن اور گلوبلائزیشن نے بھی اس کے امکانات محدود کردیئے۔ مغربی بنگال اس کے ہاتھ سے نکل گیا اور پھر تری پورہ بھی داغ مفارقت دے گیا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ مغربی بنگال جس پر لیفٹ نے ۲۷؍ سال تک بلا شرکت غیرے حکومت کی، ایک بار اس کے اثر سے باہر ہوا تو دوبارہ زیر اثر نہیں آئیگا۔آج اس ریاست پر ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس کا راج ہے جبکہ بی جے پی اپنی پوری طاقت جھونک رہی ہے تاکہ کولکاتا پر بھگوا جھنڈا لہرا سکے۔ اس رسہ کشی میں لیفٹ دکھائی تک نہیں دیتا اس کے باوجود یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ملک کے بدلے ہوئے حالات میں بائیں بازو کیلئے اُمید کے نئے اسباب پیدا ہوئے ہیں جن پر توجہ دی گئی تو سی پی ایم اور سی پی آئی جیسی پارٹیاں نئے سرے سے اپنی معنویت تلاش کرسکتی ہیں۔
ملک کے سیاسی،سماجی و معاشی منظرنامے پر نجکاری (پرائیویٹائزیشن) کی کوششیں، کارپوریٹس کو بالادستی فراہم کرنے کا رجحان، بے روزگاری میں اضافہ، مزدوروں اور ورکنگ کلاس کے مسائل، دیہی علاقوں میں بالخصوص چھوٹے اور غریب کسانوں کی بے چینی، بینک کاری کا بحران، افراط زر کی بگڑتی اور بدلتی صورتحال، فرقہ پرستی اور ایسے ہی دیگر معاملات و مسائل کا سایہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ یہی وہ حالات ہیں جن کے خلاف سرگرم رہ کر بائیں بازو کی پارٹیوں نے سرزمین وطن پر اپنی معنویت کو مستحکم کرنے اور اپنی اثر پزیری کو یقینی بنانے کی کامیاب کوشش کی تھی۔ اب ایک بار پھر وہی حالات ملک کے سیاسی نقشے پر اُبھرے ہیں تو ان پارٹیوں کو اپنی ساکھ بحال کرنے کا بہترین موقع میسر آگیا ہے۔ بہار کے حالیہ اسمبلی الیکشن میں اس کا ثبوت بھی ملا جس میں بائیں محاذ نے اپنی کھوئی ہوئی زمین تلاش کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اکتوبر نومبر کے الیکشن میں سی پی ایم، سی پی آئی اور سی پی آئی ایم ایل کو مجموعی طور پر ۱۶؍ سیٹیں ملی ہیں جبکہ ۲۰۱۵ء میں انہیں صرف ۳؍ سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا تھا۔ آر جے ڈی کی قیادت میں تشکیل شدہ مہاگٹھ بندھن میں شامل اس محاذ نے صرف ۲۹؍ حلقو ںمیں اپنے اُمیدوار کھڑے کئے تھے۔ ۲۹؍ میں سے ۱۶؍ سیٹیں جیت کر (اسٹرائکنگ ریٹ ۵۵؍ فیصد) اور ۱۹۹۵ء کے بعد سب سے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرکے اس نے سیاست میں اپنی پُرزور واپسی کا اشارہ تو دے دیا مگر اس جوش و خروش کو برقرار رکھنا اہم چیلنج ہے۔ جیسا کہ عرض کیا گیا مواقع ہیں، دیکھنا ہے کہ یہ پارٹیاں ان مواقع کو کتنے بہتر اور مؤثر طور پر بھنا پاتی ہیں۔
انہیں بھنانے کیلئے ضروری ہے کہ لیفٹ پارٹیاں نئی نسل کو قریب لانے، انہیں موقع دینے، مسائل سے اپنی پرانی وابستگی اور مسائل کے حل میں اپنی شرکت کی روداد عوام تک پہنچائیں۔ دو ماہ پیشتر (اکتوبر ۲۰ء) میں لیفٹ موومینٹ نے ملک میں ۱۰۰؍ سال پورے کئے ہیں۔ اس موقع سے فائدہ اُٹھانے اور اس طرح دبے کچلے عوام کو فائدہ پہنچانے کی کوشش بڑے پیمانے پر ملک کی ایک ایک ریاست میں ہو تو اس تحریک میں ازسرنو جان پڑسکتی ہے ۔