EPAPER
Updated: February 09, 2022, 1:48 PM IST
| Pravez Hafeez
پچھلے سال غزہ بمباری کے دو ماہ بعد امریکہ میں ہوئے ایک سروے میں ۲۵؍ فیصد امریکی یہودیوں نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف اپارتھائیڈ کے جرم کا ارتکاب کررہا ہے۔
سرکردہ عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹر نیشنل نے اسرائیل کو نسل پرست ریاست قرارد دے دیا ہے۔ چار سال کی کڑی چھان بین اور ریسرچ کےبعد ۲۸۰؍ صفحات پر مشتمل ایمنسٹی کی جو رپورٹ پچھلے ہفتے شائع ہوئی ہے اس میں شواہد اور گواہیوں کے ساتھ اسرائیل کے نسل پرستانہ اقدام اور پالیسیوں کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ ایمنسٹی کا الزام ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں اور خود اسرائیل کے اندراسرائیل کی ریاست فلسطینیوں کے تعلق سے جن پالیسیوں پر عمل پیرا ہے وہ سراسر امتیازی اور متعصبانہ ہیں اور نسل پرستی یا اپارتھائیٖڈ کے زمرے میں آتی ہیں۔ عالمی قوانین کے تحت اپارتھائیڈ کو انسانیت کے خلاف جرم تصور کیا جاتا ہے۔اپارتھائیڈسے مراد نسلی امتیاز اور تعصب کی وہ پالیسی ہے جسے ریاست کی سرپرستی حاصل ہو۔ اس ظالمانہ نظام کے سبب جنوبی افریقہ میں تقریباً نصف صدی تک سیاہ فام اکثریت نہ صرف ان سماجی، سیاسی اور معاشی حقوق سے محروم تھی جو سفید فام اقلیت کو حاصل تھے بلکہ اسے گوروں سے الگ رہنے پر مجبور بھی ہوناپڑا تھا۔ ایمنسٹی کا الزام ہے کہ’’خواہ وہ اسرائیل کے زیر انتظام مقبوضہ غزہ، مشرقی یروشلم یا غرب اردن میں رہتے ہوں یا اسرائیل کے باسی ہوں، فلسطینیوں کے ساتھ کم تر نسلی گروہ کی طرح سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں مسلسل ان کے حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔‘‘ایمنسٹی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ عالمی برادری کو چاہئے کہ وہ اسرائیلی نسلی پرستی کی حقیقت کا سامنا کرے اور فلسطینیوں کو انصاف دلائے۔ ایمنسٹی نے انٹر نیشنل کریمنل کورٹ سے جو مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات کررہی ہے، درخواست کی ہے کہ وہ اپنی ان تحقیقات میں نسل پرستی کے جرم کی جانچ کو بھی شامل کرلے۔ ان سرگرمیوں سے تلملا ئی اسرئیلی حکومت نے نہ صرف نسل پرستی کے الزام کو یکسر مسترد کردیا ہے بلکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی عالمی تنظیم کو متعصب، دہشت گردوں کی طرف داراور اسرائیل دشمن قرار دے دیا۔امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی جیسے اسرائیل نواز ممالک نے بھی ایمنسٹی کی رپورٹ مسترد کردی۔ ۱۹۶۷ء کی جنگ کے دوران جن فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی فوج نے قبضہ کیا تھا وہ آج ۵۵؍ برسوں بعد بھی اسرائیل کے زیر تسلط ہیں۔ بین الاقوامی قوانین کی رو سے یہ غاصبانہ تسلط ہے۔ پچھلی پانچ دہائیوں میں فلسطینی اراضی کی مسلسل لوٹ اور ان پر ناجائز یہودی بستیوں کی تعمیر، فلسطینی گھروں کو بموں اور بلڈوزروں سے مسمار کرنا، نسلوں سے رہائش پذیر باشندوں کو ان کے گھروں سے جبراً نکال دینا، بے گناہ فلسطینیوں کا ٹارچر اور قتل، فلسطینیوں کے آزادانہ نقل و حرکت پر پابندیاں، یہودی شہریوں سے فلسطینیوں کو علاحدہ رکھنے کے لئے غیر قانونی دیوار تعمیر کرنا اور اسرائیل کے قیام کی خاطر اپنے گھروں سے اجاڑے گئے لاکھوں فلسطینی رفیوجیوں کو وطن واپسی کے حق سے محروم رکھنے پر اصرارکے باوجود صہیونی حکومت کا دعویٰ ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہورہی ہے اور انہیں برابرکا درجہ حاصل ہے۔اسرائیل پر جب بھی تنقید کی جاتی ہے تو تل ابیب اور اس کے طرف دار ناقدین کا منہ بند کرنےکیلئے یہ راگ الاپتے ہیں کہ پورے خطے میں اسرائیل ہی واحد جمہوری ریاست ہے۔ گویا جمہوری نظام حکومت تمام نقائص اور عیوب سے پاک ہوتا ہے۔ کسی جمہوری نظام میں بھی شہریوں کے ساتھ کس طرح امتیازی سلوک کیا جاسکتا ہے اور انہیں سرکاری جبر کا شکار بنایا جاسکتا ہے، اس کا مشاہدہ آج دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل حقوق انسانی کی سب سے موقر اور معتبر عالمی تنظیم ہے جس کا دعویٰ ہے کہ وہ ساری دنیا میں انسانی حقوق کی نگرانی اوردفاع کرتی ہے اور کوئی ملک یا حکومت اس کی جانچ پڑتال سے بالا تر نہیں ہے۔ ذرا مغرب کا دوہرا معیار ملاحظہ فرمائیے!ایمنسٹی جب روس، چین، سعودی عرب یا ایران پر انسانی حقوق کی پامالی کا الزام لگاتی ہے تو اس کا خیر مقدم کیا جاتا ہے اور تنظیم کی صداقت کی سراہنا کی جاتی ہے۔ اسرائیل کو آئینہ دکھایا گیا تو برا مان گیا۔
اسرائیل پر نسل پرستی کا الزام کوئی نیا نہیں ہے۔ ایک سال قبل ہیومن رائٹس واچ نے بھی یہی الزام لگایا تھا۔ نفتالی بینیٹ حکومت کے پاس اس سوال کا کیا جواب ہے کہ اسرائیل کی انسانی حقوق کی جن دو تنظیموں نے پچھلے سال اپنی حکومت کی اپارتھائیڈ کی پالیسی کی پول کھولی تھی کیا وہ بھی یہود دشمن ہیں۔۲۰۱۴ء میں امن مذاکرات کے دوران اسرائیلی ہٹ دھرمی سے عاجز آکر امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھی یہ وارننگ دی تھی کہ اگر اسرائیل نے اپنا رویہ نہیں بدلا تو اسے نسل پرست ریاست سمجھا جائے گا۔
اسرائیل نسل پرست کے لقب سے بری طرح اس لئے بدکتا ہے کیونکہ اگر کسی ملک پر یہ لیبل چسپاں کردیا جاتا ہے تو اقوام عالم میں اس کی حیثیت ایک اچھوت ریاست جیسی ہوجاتی ہے۔ اسرائیل کی پریشانی یہ بھی ہے کہ پچھلے چند برسوں سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی جارحانہ کارروائیوں کے خلاف عالمی سطح پر اور خصوصاً امریکہ میں آوازیں بلند ہونے لگی ہیں۔ پچھلے سال غزہ پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں ۲۴۰؍ بے گناہ فلسطینی شہریوں کی ہلاکتوں اور درجنوں گھروں کے انہدام کے بعد امریکہ، برطانیہ، فرانس، ہالینڈاور جرمنی میں لاکھوں لوگوں نے اسرائیل کی ’’ ریاستی دہشت گردی‘‘ کے خلاف احتجاج کیا اور فلسطین کی آزادی کا مطالبہ بھی۔ غزہ میں اسرائیل کے انسانیت سوز جرائم سے ناراض جو بائیڈن انتظامیہ کے متعدد ڈیموکریٹ سینیٹرزاور اراکین کانگریس نے یہ مطالبہ کیا کہ امریکہ اسرائیل کو دی جانے والی ۳ء۸؍ بلین ڈالر کی سالانہ عسکری امداد بند کردے۔سوشل میڈیا پر بھی اسرائیل کی مخالفت اور فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کے پیغامات کا سیلاب آگیا۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ امریکی نوجوان اسرائیل کی اصلیت سے واقف ہوگئے ہیں اس لئے اب فلسطینیوں کو دہشت گرد قرار دے کر امریکی ہمدردی بٹورنے کے صہیونی ہتھکنڈے کام نہیں کررہے ہیں۔ مضبوط یہودی لابی کی بے پناہ دولت اور طاقت بھی اسرائیلی جارحیت کے خلاف ابھرنے والی امریکی عوام کی آوازوں کو دبانے میں کامیاب نہیں ہے۔ پچھلے سال غزہ بمباری کے دو ماہ بعد امریکہ میں ہوئے ایک سروے میں ۲۵؍ فیصد امریکی یہودیوں نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف اپارتھائیڈ کے جرم کا ارتکاب کررہا ہے۔ اسرائیلی حکومت نے ایمنسٹی کی رپورٹ کی نہ صرف مذمت کی ہے بلکہ اسے واپس لینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ در اصل صہیونی حکومت کو اب یہ ڈر ستانے لگا ہے کہ امریکہ اور یورپ میں اس کی ظالمانہ پالیسیوں کی مخالفت میں جورائے عامہ تیار ہورہی ہے اسے ایمنسٹی کی حالیہ رپورٹ سے مزید تقویت مل سکتی ہے۔