EPAPER
Updated: January 18, 2022, 12:13 PM IST | Agency | Mumbai
شہنشاہ موسیقی کےایل سہگل نے۱۵؍سال کے عرصے میں ۱۸۵؍ نغموں کے لئےاپنی آواز دی اور ۳۶؍فلموں میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔سہگل کا پورا نام کندن لال سہگل تھا۔ان کی پیدائش۱۱؍اپریل ۱۹۰۴ءمیں ہوئی تھی۔
شہنشاہ موسیقی کےایل سہگل نے۱۵؍سال کے عرصے میں ۱۸۵؍ نغموں کے لئےاپنی آواز دی اور ۳۶؍فلموں میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔سہگل کا پورا نام کندن لال سہگل تھا۔ان کی پیدائش۱۱؍اپریل ۱۹۰۴ءمیں ہوئی تھی۔ ان کے بعض سوانح نگاروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے کسی استاد سے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی اور نہ موسیقی کے کسی معروف گھرانے سے وابستہ تھے لیکن جب جموں میں تھے تووالدہ کے ساتھ مذہبی تقاریب اور مندروں میں بھجن کی محفلوں میں شرکت کرتے اور والدہ کے ساتھ مل کر بھجن گایا کرتےتھے۔ موسیقی اور گائکی سہگل کی رگ رگ میں رچی بسی ہوئی تھی جو ان کا ذریعہ معاش نہیں تھا نہ ہی انہوں نے اسے روزی کا ذریعہ بنانے کا کوئی منصوبہ بنایا تھا اور بنا بھی نہیں سکتے تھے، اس لئے کہ اس زمانے میں موسیقی اور پہلوانی دونوں صرف جاگیرداروں اور رجواڑوں کی سرپرستی میں فروغ پاتی تھیں۔چنانچہ سہگل کلکتہ چلے گئے اور وہاں انہیں ٹائپ رائٹر بنانے والی کمپنی میں ۸۰؍روپے ماہانہ کی سیلز مین کی نوکری مل گئی۔ کلکتہ میں ہی ان کی ملاقات نیو تھیٹر کے بانی بی این سرکار سے ہوگئی۔ سرکار کو سہگل کی آواز بہت پسند آئی اور انہوں نے نیو ٹھیٹر میں سہگل کو گلوکار کے طور پر ۲۰۰؍ روپے ماہانہ ملازمت پر رکھ لیا۔یو تھیٹر میں اس زمانے میں رائے چند بورل، تامیر برن، کے سی ڈے، پہاڑی سانیال اور پنکج ملک جیسے موسیقار موجود تھے جن میں بورل سب سے سینئر تھے اور انہوں نے سہگل کے فن میں نکھار اور پختگی پیدا کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ۔نیو تھیٹر کی فلموں سے ہی سہگل کو ہندوستان میں شہرت حاصل ہوئی۔ نیو تھیٹر کے موسیقاروں کی بنائی ہوئی دھنوں پر ہی انہوں نے وہ نغمے گائے جنہوں نے انہیں زندہ جاوید بنادیا۔ مثلاً دیو داس کا یہ نغمہ ’دکھ کے دن اب بیتت ناہیں ‘ یا ’بالم آن بسو میرے من میں‘ یا فلم اسٹریٹ سنگر کا یہ گیت ’بابل مورا نہیئر چھوٹل جائے‘ وغیرہ وغیرہ۔نیو تھیٹر نے ابتدا میں سہگل کے ساتھ ۳؍ فلمیں بنائیں جو مالی اعتبار سے ناکام رہیں۔ ان میں پہلی محبت کے آنسو، زندہ لاش اور صبح کا تارہ شامل ہیں۔ ۱۹۳۳ءمیں بھی نیو تھیٹر نے ۳؍ فلمیں ریلیز کیں جن میں پورن بھگت، راج رانی میرا او اور یہودی کی لڑکی شامل ہیں۔ یہ فلمیں کامیاب رہیں جس سے سہگل کو شہرت ملی اور بحیثیت اداکار اور گلوکار وہ شناخت بنانے میں کامیاب رہے۔
۱۹۳۴ءمیں نیو تھیٹر نے مزید ۳؍ فلمیں ریلیز کیں جن میں چندی داس نے سہگل کو وہ مقام دیا جہاں سے انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا یہاں تک کہ دوسرے سال یعنی ۱۹۳۵ء میں دیو داس نے ان کو ایک کامیاب گلوکار کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب اداکار بھی بنادیا۔ دیوداس ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے جو ایک اعلیٰ ذات کے بڑے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اور ایک چھوٹی ذات کی لڑکی سے محبت کرنے لگتا ہے۔دیوداس پہلے بنگالی میں بنائی گئی تھی جس میں بروا نے دیوداس کا کردار ادا کیا۔ اس فلم کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے اسے ہندی میں بھی بنانے کا فیصلہ کیا گیا جس میں سہگل نے دیوداس کا مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ سہگل نیو تھیٹر کی کئی کامیاب فلموں میں کام کرنے کے بعد، جن میں کروڑ پتی، پجارن، دیدی، پریسی ڈنٹ، اسٹریٹ سنگر، ساتھی دشمن اور کئی کامیاب بنگالی فلمیں شامل ہیں، ممبئی کا رخ کیا اور رنجیت اسٹودیو سے وابستہ ہو گئے یہاں انہوں نے بھگت سورداس اور تانسین میں کام کیا جو ہر اعتبار سے کامیاب فلمیں تصور کی جاتی ہیں۔ سہگل نے فلم تان سین کے بعد، جو ۱۹۴۴ء میں ریلیز ہوئی، ۱۹۴۷ءتک ۷؍ فلموں میں کا م کیا۔ ان میں فلم شاہجہاں کا نام قابل ذکرہے۔شاہ جہاں اس اعتبار سے بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس میں مجروح سلطان پوری نے پہلی مرتبہ کسی فلم کے لئے نغمے لکھے تھے۔ سہگل کے انداز کو اتنا پسند کیا گیا کہ دوسرے گلوکار بھی انہی کی طرز پر گانے کی کوشش کرنے لگے۔ گلوکار مکیش نے بھی اپنے ابتدائی دنوں میں سہگل سے متاثر ہوکر کئی نغمے گائے۔سہگل کے دیگر مشہور نغموں میں ، غم دیئے مستقل، ایک بنگلہ بنے نیارہ، جب دل ہی ٹوٹ گیا ہم جی کے کیا کریں گے، میرے سپنوں کی رانی وغیرہ شامل ہیں۔ سہگل نے فلمی نغموں کے علاوہ غزلیں بھی گائیں۔ اگرچہ انہوں نے بڑے شاعروں کے کلام کو بھی گایا لیکن غالب سے انہیں جو والہانہ شغف تھا وہ اور کسی شاعر سے نہیں تھا۔ چنانچہ انہوں نے غالب کو کچھ اتنا رچ کے گایا ہے کہ جیسے وہ غالب کا کلام محض گانے کے لئے نہیں بلکہ ہر خاص و عام کو سمجھانے کے لئےگا رہے ہوں۔ مشہور ہے کہ بیگم اختر بھی جو غزل کی گائکی میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتی تھیں سہگل کی بڑی مداح تھیں۔ سہگل کی آخری فلم پروانہ تھی جو ۱۹۴۷ءمیں غالباً ان کے انتقال کے بعد ریلیز ہوئی۔ اس فلم کے میوزک ڈائریکٹر خورشید انور تھے۔ عام طور پر مشہور ہے کہ ہر میوزک ڈائریکٹر سہگل سے کہتا کہ ریکارڈنگ سے پہلے شراب پی لیا کرو اس سے تمہاری آواز کی نغمگی بڑھ جاتی ہے لیکن خورشید انور نے انہیں شراب کے بغیر ہی ریکارڈ کیا۔
سہگل ۱۸؍جنوری ۱۹۴۷ءکو جالندھر میں اس سرائے فانی سے کوچ کرگئے۔ شراب نوشی کی عادت نے ان کی زندگی کے سفر کو مختصر کر دیا تھا۔ انتقال کے وقت ان کی عمرمحض ۴۲؍برس رہی ہوگی۔ اس مختصر سی عمر میں انہوں نے اپنے لئےجو مقام بنایا ہے وہ ان کو ہمیشہ زندہ رکھنے کے لئے کافی ہے۔