EPAPER
Updated: February 15, 2022, 11:33 AM IST | Agency | Washington
جو بائیڈن کی ولادیمیر پوتن سے ٹیلی فون پر گفتگو، جرمن چانسلر اولاف شولس نےروس اور یوکرین کے دورے پر روانہ ہونے سے قبل ولادیمیر پوتن کو حملے کے تعلق سے متنبہ کیا
روس اور یوکرین کے درمیان جاری کشیدگی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے اور اب یوں لگ رہا ہے کہ کوئی اہم واقعہ رونما ہونے کو ہے۔ جہاں ایک طرف امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر نے کہا ہے کہ روس کسی بھی وقت یوکرین پر حملہ کر سکتا ہے ، تو دوسری طرف جرمنی کے چانسلر نے روس کو متنبہ کیا ہے کہ اگر اس نے یوکرین پر حملہ کیا تو اس کے خلاف سخت پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ جبکہ امریکی صدر جو بائیڈن نے پیر کو ٹیلی فون کرکے روسی صدر ولادیمیر پوتن سے گفتگو کی۔
روس کبھی بھی بمباری شروع کر سکتا ہے
امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سیلوان نے ایک ٹی وی چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا ہے کہ روس اب کسی بھی وقت یوکرین پر بمباری کر سکتا ہے۔ انہوں نےکہا کہ ’’ ہم کسی خاص وقت کا تعین نہیں کر سکتے، لیکن جیسا کہ ہم پہلے دن سے خبردار کر رہے ہیں،ہم اس (جنگ) کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ اب روس کسی بھی وقت یوکرین پر حملہ شروع کر سکتا ہے اور ایک بڑی فوجی کارروائی شروع ہو سکتی ہے۔‘‘ سیلوان کے مطابق ’’ حملے کا وقت اولمپکس سے پہلے کا وقت یعنی آئندہ ہفتہ بھی ہو سکتا ہے۔ امریکہ اس دوران کبھی بھی یوکرین پر بمباری شروع کر سکتا ہے۔ ‘‘ واضح رہے کہ امریکہ گزشتہ کئی ماہ سے کہہ رہا ہے کہ روس یوکرین پر حملہ کرنے والا ہے ، حالانکہ روس نے کئی بار کہا ہے کہ وہ یوکرین پر حملے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ بس اس کی یہ شرط ہے کہ نیٹو خطے میں اپنی سرگرمیاں محدود کرے اور یوکرین کو اپنی رکنیت نہ دے۔
جرمنی کی جانب سے تنبیہ
ادھر جرمنی کے چانسلر اولاف شولس نے روس کو متنبہ کیا ہے کہ اگر اس نے یوکرین پر حملہ کیا تو اس کے خلاف سخت پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ اولاف شولس نے روس پر زور دیا ہے کہ وہ خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کرے۔ جرمنی کے چانسلر نے یہ بات ماسکو اور کیف کے دورے پر روانہ ہونے سے قبل صحافیوں سے کہی۔ یاد رہے کہ جرمنی کے اخبار نے بھی اس بات کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس ہفتے روس یوکرین پر حملہ کر سکتا ہے۔ حالانکہ اخبار نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اس خبر تصدیق نہیں کر سکتا ۔ یعنی اس نے یہ بات محض ذرائع کے حوالے سے لکھی ہے۔ البتہ امریکی قومی سلامتی کے مشیر کے بیان اور جرمنی کے چانسلر کی جانب سے کی گئی تنبیہ کے بعد یہ خبر سچ معلوم ہونے لگی ہے۔
جرمن چانسلر نے کہا کہ’’ یوکرین کے خلاف کسی ایسی فوجی جارحیت کی صورت میں، جس سے اس کی علاقائی سالمیت اور خود مختاری کو خطرہ لاحق ہو، روس پر سخت پابندیاں عائد کی جائیں گی جو ہم نے احتیاط سے تیار کی ہیں۔ ہم انہیں نیٹو اور یورپ میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر فوری طور پراسے (پابندی کو) نافذ کر سکتے ہیں۔اولاف شولس نے پابندیوں کی تفصیلات نہیں بتائیں تاہم اس سے قبل امریکہ اور یورپی یونین پابندیوں کیلئے روسی بینکوں کو نشانہ بنانے کے امکان سے خبردار کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ روس سے یورپ کی طرف جانے والی گیس پائپ لائن کو روکنے کی کارروائی بھی کی جا سکتی ہے۔ جہاں تک بات ہے کہ اولاف شولس کے روس اور یوکرین دورے کی تو ذرائع کا کہنا ہے کہ جرمن چانسلر یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی سے ملاقات کے دوران وہ یوکرین سے اظہار یکجہتی کریں گے جبکہ روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ملاقات کے دوران اولاف انہیں جنگ کے تعلق سے متنبہ کریں گے۔ یعنی جو باتیں انہوں نے میڈیا کے سامنے کہی ہیں وہی وہ روسی صدر کے سامنے بھی کہیں گے۔
جوبائیڈن کی پوتن سے ٹیلی فونک گفتگو
ادھر امریکی صدر جو بائیڈن نے روسی صدر ولادیمیر پوتن سے فون پر گفتگو کی۔ ذرائع کے مطابق دونوں لیڈروں نے یوکرین معاملے پر سفارتی حل نکالنے پر اتفاق کیا۔ وہائٹ ہائوس کے ذرائع نے بتایا کہ امریکی صدر نے ولادیمیر پوتن کو فون کرکے جارحیت کی صورت میں امریکہ اور یورپ کی جانب سے ہونے والے رد عمل سے آگاہ کیا۔ ساتھ ہی اس بات پر زور دیا کہ وہ یوکرین معاملے کا حل سفارتکاری کےذریعے نکالنے کی کوشش کریں۔ روسی صدر نے بائیڈن کے سامنے نیٹو کی سرگرمیوں کے تعلق سے اپنے خدشات کو پھر واضح کیا۔ یاد رہے کہ جو بائیڈن اس سے قبل بھی پوتن سے فون پر بات کر چکے ہیں۔ ہر بار یہی باتیں دہرائی گئی ہیں۔ فی الحال حالات انتہائی کشیدہ ہیں اور بائیڈن کے ساتھ پوتن کی اس گفتگو کو فیصلہ کن قرار دیا جا رہا ہے۔ اس دوران امریکہ ، سعودی عرب، آسٹریلیا، کویت اور دیگر ممالک کے باشندوں نے یوکرین چھوڑ کر اپنے ملک روانہ ہونا شروع کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ ان ممالک نے یوکرین میں موجود اپنے باشندوں کو جلد از جلد یوکرین چھوڑ دینے کی ہدایت دی تھی۔ امریکہ نے تواپنے شہریوں کو ۴۸؍ گھنٹوں کے اندر یوکرین چھوڑنے کیلئے کہا تھا۔ حالانکہ ۴۸؍ گھنٹوں کا یہ وقت پورا ہوچکا ہے۔ اس کشیدگی کے درمیان عالمی سطح پر بازار کی حالت بگڑتی جا رہی ہے۔ کئی ممالک میں اسٹاک ایکسچینج کے اعداد وشمار نیچے کی طرف آ رہے ہیں۔